تحقیقی کالم

تحقیقی کالم

دوستو،اکثر لوگوں کا معمول ہوتا ہے کہ وہ ہفتہ وار چھٹیوں کے دوران بستر پر ہی پڑے رہتے ہیں۔ اب ایک سلیپ ایکسپرٹ نے ایسے لوگوں کو بری خبر سنا دی ہے۔ا سٹیفنی رومیزیوسکی نامی اس خاتون ماہر نے بتایا ہے کہ دن میں بار بار بستر پر لیٹنا نیند کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس سے نیند کا معیار انتہائی ناقص ہو جاتا ہے، کیونکہ ہمارا جسم خیال کرتا ہے کہ وہ کافی نیند لے چکا ہے اور پھر رات کو نیند میں سکون نہیں رہتا۔اسٹیفنی کا کہنا تھا کہ ’’خواہ ہفتہ وار چھٹیوں میں بستر پر لیٹنے کی عادت ہو، یہ نیند کے لیے بہت نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ یہ وقت کے ساتھ ساتھ باقاعدہ عادت بن جاتی ہے۔‘‘ ایک اور سلیپ ایکسپرٹ نروان امینی نے سونے کی پوزیشن کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا ہے کہ ’’عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ نیند کے شروع میں ایک سائیڈ پر لیٹنا بہترین ہوتا ہے مگر یہ تاثر غلط ہے۔ پہلو کے بل سونا پٹھوں کے کھنچاؤ اور پیٹ درد کا سبب بنتا ہے۔ اس سے کمر اور گردن میں بھی تکلیف ہو سکتی ہے۔‘‘ نروان امینی کا کہنا تھا کہ بہتر نیند کے لیے اوندھے منہ سونا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
دیگر کئی چیزوں کی طرح نیند کے متعلق بھی کئی طرح کے من گھڑت مفروضے اور کہانیاں پائی جاتی ہیں جنہیں نیند کے حصول کے لیے بہت فائدہ مند بتایا جاتا ہے مگر اب ایک سلیپ ایکسپرٹ نے 5ایسی کہانیوں کو الٹا نیند کے لیے نقصان دہ قرار دے دیا ہے۔ جیمز ولسن نامی اس ماہر نے بتایا ہے کہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ہمیں بہتر نیند کے لیے جلدی سونا چاہیے۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ ہر حال میں 8گھنٹے کی نیند لینی چاہیے، تھکے ہوئے ہوں تو بے وقت بھی سو جانا چاہیے، ہفتہ وار چھٹیوں میں نیند پوری کرنے کے لیے دیر تک سوتے رہنا چاہیے اور بھاری کمبل اوڑھ کر سونا چاہیے۔جیمز ولسن کا کہنا ہے کہ یہ تمام نیند کے متعلق پائے جانے والے ایسے عام خیالات ہیں جو الٹے نقصان دہ ہیں۔ اچھی نیند کے لیے جلدی سونا ضروری نہیں ہوتا بلکہ آپ کو اپنے نیند کے وقت پر ہی سونا چاہیے۔ اسی طرح 8گھنٹے کی نیند کے لیے جتن کرنے کے بجائے اتنا ہی سونا چاہیے جتنے میں آپ کی نیند بخوبی پوری ہو جائے اور تھکاوٹ کے باوجود اپنے نیند کے وقت کا انتظار کرنا چاہیے۔ جلدی سو جانا الٹا تھکاوٹ میں اضافے کا سبب بنے گا۔ ہفتہ وار چھٹیوں میں زیادہ سونا آپ کی نیند کے معمول کو بگاڑ کر رکھ دے گا جس سے آپ کی نیند کا معیار بری طرح متاثر ہو گا۔ اسی طرح بھاری کمبل نیند کے معیار میں بہتری کے بجائے خرابی کا سبب بنتا ہے۔ آپ کو کمبل اتنا ہی بھاری استعمال کرنا چاہیے جتنا آپ کے لیے مناسب ہو۔
امریکی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ سونے سے موٹاپا کم کرنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ اس وجہ سے ہمیں کم کیلوریز کی ضرورت پڑتی ہے۔80 رضاکاروں پر کی گئی اس تحقیق کے نتائج اس لحاظ سے اہم ہیں کیونکہ اس سے پہلے کی تحقیقات سے بار بار یہی پتا چلا ہے کہ معمول سے زیادہ سونے کا نتیجہ زائد موٹاپے اور ذیابیطس کے علاوہ دل و دماغ کی مختلف بیماریوں کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے۔یونیورسٹی آف شکاگو میں اس تحقیق کے دوران 25 سے 35 سال کے صحت مند رضاکار شریک کیے گئے جن میں سے نصف کو دو ہفتے تک معمول سے ایک گھنٹہ 12 منٹ زیادہ سلایا گیا۔یعنی اگر وہ رات میں 8 گھنٹے کی گہری نیند لے رہے تھے تو مختلف طریقوں کی مدد سے یہ دورانیہ بڑھا کر 9 گھنٹے 12 منٹ کردیا گیا۔یہ سلسلہ دو ہفتے جاری رہا جس دوران رضاکاروں میں نیند کے دورانیے، سونے جاگنے کے معمولات اور توانائی کی روزمرہ ضروریات پر نظر رکھی گئی۔معمول سے زیادہ (لیکن پرسکون اور معیاری) نیند لینے والے رضاکاروں کی بھوک کم ہوئی، ہاضمہ بہتر ہوا جبکہ اضافی ورزش یا جسمانی مشقت کے بغیر ان کا وزن بھی قابو میں رہا۔نیند میں اوسطاً ایک گھنٹے کے اضافے سے رضاکاروں میں غذائی توانائی کی یومیہ ضرورت میں لگ بھگ 400 کیلوریز کی کمی واقع ہوئی۔اس تحقیق کی مرکزی مصنفہ ڈاکٹر اسریٰ تصالی کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں میں جہاں یہ معلوم ہوا کہ نیند متاثر ہونے سے بھوک بڑھتی ہے اور موٹاپے کے خطرے میں اضافہ ہوتا ہے؛ وہیں اس سوال نے بھی شدت اختیار کرلی کہ کیا معمول سے ایک گھنٹہ زیادہ کی پرسکون نیند، موٹاپا کم کرنے میں ہماری کوئی مدد کرسکتی ہے یا نہیں؟امریکا میں طبّی آزمائش (کلینیکل ٹرائل) کے طور پر رجسٹر کرائی گئی اس تحقیق کے نتائج ’’جاما انٹرنل میڈیسن‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئے ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ موٹاپا کم کرنے میں اچھی اور طویل نیند کا کردار بھی خاصا اہم ہوسکتا ہے۔یہ نتائج امید افزا ضرور ہیں لیکن محدود افراد پر تحقیق کی بنا پر فی الحال انہیں حتمی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
کینیڈا میں کی گئی ایک تازہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ موٹاپے سے نہ صرف دل کی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے جبکہ دماغ کو بھی زیادہ تیزی سے بڑھاپے کا شکار ہونے لگتا ہے۔یہ تحقیق 50 سے 66 سال کے 9 ہزار سے زائد کینیڈین شہریوں پر کی گئی جن کی اوسط عمر 58 سال کے لگ بھگ تھی۔ان میں سے جو افراد معمول سے زیادہ وزنی (اوور ویٹ) یا موٹے تھے، ان میں توقعات کے مطابق دل اور شریانوں کی مختلف بیماریوں کا خطرہ بھی نارمل وزن والے لوگوں کی نسبت زیادہ تھا۔تاہم جب یادداشت اور اکتساب (سیکھنے کی صلاحیتوں) سے متعلق ان افراد کے ٹیسٹ لیے گئے تو موٹے افراد کا سکور، نارمل وزن رکھنے والوں سے نمایاں طور پر کم دیکھا گیا۔موٹے افراد میں یادداشت اور اکتساب کی کمی سے ظاہر ہورہا تھا کہ اضافی چربی نہ صرف ان کے جسم کو، بلکہ ان کے ذہن کو بھی متاثر کررہی تھی۔اسی بنا پر موٹے لوگوں کی ذہنی عمر، ان کی جسمانی عمر کے مقابلے میں کئی سال زیادہ ہوچکی تھی، یعنی وہ وقت سے پہلے بوڑھے ہونے لگے تھے۔اس تحقیق کی روشنی میں ماہرین کا کہنا ہے کہ موٹاپے میں مبتلا افراد کو اپنی جسمانی سرگرمیوں، بالخصوص پیدل چلنے پر زیادہ توجہ دینا چاہیے کیونکہ اس طرح جسم میں خون کا بہاؤ بہتر ہوتاہے۔نتیجتاً دماغ تک پہنچنے والے خون کی مقدار میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور دماغ کی صحت بہتر رہتی ہے جس سے دماغ پر عمر رسیدگی کے اثرات بھی کم پڑتے ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بڑے ہونا اہم نہیں، اپنے پیروں پر کھڑے ہونا اہم ہوتا ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

مصنف کے بارے میں