کشمیر: معاہدہ امرتسر سے آئینی انضما م تک

کشمیر: معاہدہ امرتسر سے آئینی انضما م تک

کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان سلگتا ہوا وہ آتش فشاں جو کسی وقت بھی دونوں ریاستوں کو خوفناک تصادم سے دو چار کرسکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ایک بڑا انسانی المیہ کبھی بھی جنم لے سکتا ہے۔ اقوام ِعالم ٗ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کو خطرناک تو قرار دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے اس کے حل کیلئے ابھی تک دنیا نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ جن معاملات کو عالمی طاقتیں حل کرنا چاہتی ہیں اُس کیلئے وہ اقوام متحدہ یا مہذب انسانوں کے کسی بھی فورم کے پابند نہیں۔ علامہ عنایت اللہ المشرقی مرحوم نے کہا تھا: ”جس دن تم کشمیر کا مسئلہ اقوام متحدہ میں لے گئے یہ قیامت تک حل نہیں ہو گا“۔وقت نے علامہ عنایت اللہ المشرقی کی یہ بات سچ ثابت کردی۔ 5 فروری پاکستانی یوم یکجہتی کشمیر کے طور پر مناتے ہیں لیکن کشمیر کے ساتھ جڑے ہوئے کچھ مسائل ایسے بھی ہیں جو ہم اپنے بچوں اور نصاب سے چھپا کر رکھتے ہیں۔ کشمیر انسانی تاریخ کا واحد خطہ ء زمین ہے جو 16 مارچ 1846ء کو معاہدہ امرتسر کے تحت84471 مربع میل صرف 75 لاکھ نانک شاہی (سکہ رائج الوقت) میں بیچ دیا گیا۔ 25 لا کھ کشمیریوں کو بمعہ زمین کے بیچتے وقت ایک کشمیری کی قیمت صرف تین نانک شاہی مقررکرنے کا یہ سنگین جرم افریقا کے کسی غیر مہذب قبیلے نے نہیں بلکہ خود کو دنیا کی سب سے مہذب قوم کہلانے والے تاجدار برطانیہ کا ہے۔کشمیر ٗ پنجابی سکھوں سے غداری کے صلہ میں گلاب سنگھ ڈوگرہ کو ویسے ہی عطا کیا گیا جیسے اس سے پہلے میر جعفر کو بنگال اور میر صادق کو ریاست میسور عطا کی گئی تھی۔ امرتسر معاہدے کے باوجود ڈوگرہ خاندان کشمیر کا قبضہ نہ لے سکا کیونکہ کشمیر کے گورنر شیخ انعام الدین نے ڈوگرہ فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور نہ صرف انہیں شکست دی بلکہ ڈوگرہ کمانڈر لکھپت رائے کو ڈل گیٹ کے مقام پر قتل بھی کردیا۔ اس شکست کے بعد ڈوگرہ خاندان نے انگریزوں سے قبضہ کی بابت مدد مانگی تو سرلارنس کی قیادت میں 9 نومبر 1846ء کو ایک معرکہ کے بعد انگریز سرکار نے کشمیر پر ڈوگرہ راج قائم کروا دیا۔ڈوگرہ راج اپنی پوری بربریت کے ساتھ کشمیر پر قائم و دائم ہو ا جس کو وسعت دیتے ہوئے بعد ازاں 1896ء میں گلگت اور 1936ء میں پونچھ کے علاقے کو بھی کشمیر کا حصہ بنا دیا گیا۔ تاجدار برطانیہ کی بربریت کی یہ داستان اپنی جگہ لیکن کشمیر کا نقشہ غورسے دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ برطانیہ کو زارِ روس سے شدید خطرہ تھا سو انہوں نے مستقبل میں اُس خطرے کے پیش نظر گلاب سنگھ ڈوگرہ کو یہاں قربانی کا بکرا بنا کرباندھ دیا تاکہ ایسے کسی حملے کی صورت میں انگریز سپاہیوں کا خون زاروں کے خلاف کام نہ آئے لیکن اُنیسویں صدی کے ختم ہونے تک زار بھی اندرونی خلفشار کا شکار ہو چکے تھے اوررہی سہی کسر سوشلسٹ انقلابیوں نے اکتوبر 1917ء کے انقلاب میں پوری کردی۔ 1586ء سے مغلوں اور افغانوں نے کشمیر فتح کرکے ہمیشہ مقامی آباد کو شراکت ِ اقتدار میں رکھا لیکن بدقسمتی سے ڈوگرہ خاندان  نے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھتے ہوئے سوائے کشمیری پنڈتوں کے کسی کو اقتدار میں شامل نہ کیا۔ مسلمانوں کیلئے کشمیر میں زندگی بسر کرنا ناممکن ہو گیا۔ ٹیکسوں کی بھرمار نے عام مسلمان کی کمر توڑ کررکھ دی۔ قصابوں ٗ نانبائیوں ٗ ترکھانوں ٗ ملاحوں ٗ ماہی گیروں یہاں تک کے کشمیر میں جسم فروشی کرنے والی عورتوں پر بھی ٹیکس عائد کردیا گیا۔جفاکش کُلیوں کو اپنی مزدوری سے سرکاری ملازمین کو حصہ دینا پڑتا 
تھا جبکہ بعدازا ں پونچھ میں بکری ٹیکس ٗ مرغی ٹیکس یہاں تک کے بیوی پر بھی ٹیکس عائد کردیا گیا۔کوئی ریاستی کشمیری صاف ستھرے کپڑوں میں گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا کہ کہیں اُسے مالدار سمجھ کر اُس پر کوئی ٹیکس عائد نہ کردیا جائے۔ہندووں کوبغیر لائسنس اسلحہ رکھنے کی اجازت تھی لیکن مسلمانوں کو یہ اجازت لائسنس ہونے کے باوجود نہیں تھی۔ مسلمانوں کو مساجد میں اذان دینے سے روک دیا گیا ٗ مساجد بحق سرکار ضبط کر لی گئیں ٗ سرینگر کی جامع مسجد کو اصطبل بنا دیا گیا۔کسی سکھ کے ہاتھوں قتل پر 16سے 20 روپے جرمانہ تھا جس میں سے لواحقین کو 4 روپے ملتے تھے جبکہ مسلمانوں ورثہ کو صرف 2 روپے دیئے جاتے تھے۔ پانی میں پیدا ہونے والے سنگھاڑوں اور مسلمانوں کی شادیوں پر بھی ٹیکس عائد کردیا گیا۔ڈوگرہ راج نے آغاز میں ہی محکمہ مال کے مسلمان ملازمین کو اُن کی ملازمتوں سے فارغ کردیا۔ ایسا کوئی ظلم و ستم نہ تھا جو ڈوگرہ را ج نے مسلمانوں پر روا نہ رکھا ہو۔ کشمیریوں کی ایک بہت بڑی تعداد کشمیر سے ہجرت کرکے پنجاب میں آ گئی۔ جو گورداسپور کی جانب سے اترے وہ امرتسر پہنچ گئے اور جو سیالکوٹ اور نارووال سے داخل ہوئے وہ سیالکوٹ ٗ گجرات ٗ گجرانوالہ ٗ لاہور اور شیخوپورہ میں قیام پزیر ہوئے۔ 15اگست 1947ء کی تقسیم کے وقت ظلم کی چکی تلے پستے ہوئے کشمیریوں کو 101 سال ہو چکا تھا لیکن جب ہم مسئلہ کشمیر کو 1947ء کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں تو یہ کشمیریوں کے ساتھ بدترین ظلم ہے کہ ہم اُن کی 101 سالہ طویل جدوجہد اور ظلم و ستم ہی اُس داستان کو نگل جاتے ہیں جو اُنہوں نے اپنے خون سے لکھی ہے۔ حالانکہ 1929ء میں شیخ عبد اللہ نے ریڈنگ روم تنظیم جبکہ اے۔ آر۔ ساغر نے ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن بنا کر کشمیری عوام کیلئے نئے سرے سے جدو جہد کا آغاز کیا۔ شیخ عبد اللہ نے ایک تحریک کا آغاز بھی کیا جس کا ایک ہی نعرہ تھا: معاہدہ امرتسر توڑ دو۔۔۔ کشمیر وادی چھوڑ دو۔ جس سے یہ بات تو ثابت ہوتی ہے کہ کشمیری رہنما 1929ء کے بعد تک معاہدہ امرتسر کی منسوخی کا مطالبہ کرتے رہے۔ میرے لئے یہ بات آج بھی حیران کن ہے کہ پاکستانی قائدین کو یہ بات سمجھ کیوں نہیں آئی کہ دو خود مختار ریاستیں بنانے والے پہلے ہی معاہدہ امرتسر کے تحت کشمیرکو بیچ چکے تھے اوراُس معاہد ے کی تنسیخ کے بغیر کشمیر کی حیثیت پر 3جون کے منصوبے کا اطلاق ہی نہیں ہوتا تھا کیونکہ کشمیر ریاست نہیں انسانوں سمیت ڈوگرہ خاندان کی ذاتی ملکیت بنا دیا گیا تھا اور اُس وقت کے کشمیری مسلمان قائدین اس معاہدے کی تنسیخ کیلئے احتجاج بھی کررہے تھے۔ تقسیم کے بعد 22اکتوبر سے پہلے آر۔ ایس۔ ایس کے غنڈوں کے بہت بڑی تعداد کشمیر میں داخل ہو چکی تھی۔ گلگت بلتستا ن کی عوام نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جو پھیلتا ہوا پونچھ تک جا پہنچا جہاں پونچھیوں نے قبائلیوں کی مدد سے مہاراجہ کی فوج کو مار بھگایا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر پر پہلی جنگ ہوئی جس کو اقوام متحدہ نے بھارتی درخواست پر رکوا دیا اور وعدہ کیا کہ کشمیری اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کریں گے کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ یا پھر وہ خودمختار ریاست بنانا چاہتے ہیں۔ راجہ ہر ی سنگھ پر بھارت کے ساتھ الحاق کرنے کے حوالے سے بہت زیادہ دباؤ تھا جس کی وجہ سے پہلے اُس نے بھارت اورپاکستان کو خود مختار کشمیر بنانے کا عندیہ بھی دیا جس کا بھارت نے کوئی جواب نہ دیا جب کہ پاکستان اُس وقت اُس کی خود مختار حیثیت بھی تسلیم کرنے کیلئے تیار تھا۔ مسئلہ کشمیر کو مزید گھمبیرتا اُس وقت ملی جب ہم نے قیام پاکستان کے بعد کشمیر کو 1947ء کا مسئلہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا اور 16 مارچ 1846 ء کو ہونے والے غیر انسانی اور غیر اخلاقی معاہدہ کو اپنی نسلوں ٗ اقوام عالم اور تاریخ کے اوراق سے غائب کردیا۔ اُس کی واحد وجہ جو سمجھ آئی و ہ یہی ہے کہ ہم برطانیہ جیسے طاقتور ملک کو فریق بنانے کیلئے تیار ہی نہیں تھے کہ وہ معاہدہ امرتسر کی تنسیخ کرے کیونکہ 1955ء تک ہمارے ہر گورنر جنرل نے تاجدار برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھا یا تھا جوآخر کارسکندر مرزا پر آ کرختم ہوا اوریوں سکندر مرزا پاکستان کا آخری گورنر جنرل اور پہلا صدر بنایا گیا۔پاکستان اب تک کشمیر پر بھارت سے 4 جنگیں لڑ چکا ہے۔ 1948ء کی جنگ کے نتیجہ میں ہم کو یو این او کی قرارداد تھما دی گئی۔ 1965ء کی جنگ کے بعد معاہدہ تاشقند ہوا۔ 1971ء میں ملک دو لخت ہوا اورہمارے حصے میں شملہ معاہدہ آیا۔اعلان لاہور کے بعد ہم نے کارگل کی بے نتیجہ جنگ کی جس کا آج تک فیصلہ نہیں ہو سکا کہ اُسے شروع پاکستان کی طرف سے کس نے کیا تھا۔ پرویزمشرف دور میں ہونے والی آگرہ کانفرنس کا تو مشترکہ اعلامیہ بھی جاری نہ ہو سکا اورپھر 5 اگست 2019ء کو جب عمران احمد خان نیازی پاکستان کے وزیر اعظم تھے۔بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اُسے کشمیر کا حصہ بنا لیا اورپاکستان سے کوئی طاقتور اوربلند آوا ز عالمی ضمیرکی سماعتوں سے نہ ٹکرائی۔ اس حوالے سے میرا موقف یہی ہے کہ ہمیں پانچ فروری کے بجائے 16 مارچ بطور یوم ِ یکجہتی کشمیر کے طور دنیا کے سامنے لانا چاہیے۔ ہمیں معاہدہ امرتسر کو اپنے نصاب کاحصہ بنانا ہو گا تاکہ ہمارے آنے والی نسلوں کو کشمیر کے ساتھ ہمارے انسانی رشتے کا بھی پتہ چل سکے۔