پی آئی اے خلیجی ریاستوں میں پھنسے 6 ہزار 461 پاکستانیوں کو واپس لائے گی

پی آئی اے خلیجی ریاستوں میں پھنسے 6 ہزار 461 پاکستانیوں کو واپس لائے گی
سورس: فوٹو: بشکریہ ٹوئٹر

راولپنڈی: پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) خلیجی ریاستوں میں پھنسے 6 ہزار 461 پاکستانیوں کو وطن واپس لائے گی جبکہ دوحہ اور بحرین سے 155 اور 145 مسافروں پر مشتمل دو پروازیں آج پہنچنے کا امکان ہے۔ 
نجی خبر رساں ادارے کے مطابق وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور خان نے اپنے پبلک سیکرٹریٹ میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے ایئربس کے بجائے بوئنگ 777 پر کام کرے گی تاکہ عید سے قبل 18 پروازوں پر دبئی، شارجہ، دوحہ اور بحرین سے پاکستانیوں کو واپس لایا جاسکے، بوئنگ کے آپریشن سے نشستوں کی تعداد 2 ہزار تک بڑھے گی۔
دوسری جانب پی آئی اے کے ترجمان نے بتایا کہ 5 جولائی کو دوحہ سے ایک پرواز 155 اور بحرین سے 145 مسافروں کو لے کر پہنچے گی جبکہ زیادہ تر 3 ہزار 394 مسافروں کو 5 سے 18 جولائی کے دوران پی آئی اے کی 10 پروازوں کے ذریعے متحدہ عرب امارات سے وطن واپس لایا جائے گا۔
اس کے علاوہ 6 سے 18 جولائی تک دوحہ سے تقریباً 2 ہزار 916 مسافر کو 6 پروازوں کے ذریعے لایا جائے گا جبکہ 8 اور 11 جولائی کے دوران دو بوئنگ 777 کے ذریعے 722 افراد وطن لایا جائے گا۔ علاوہ ازیں وزیر ہوا بازی نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ رنگ روڈ منصوبہ ایک صوبائی معاملہ ہے لیکن امید ہے کہ اس پر کام ستمبر میں شروع ہوگا۔
ایک سوال کے جواب میں غلام سرور خان نے کہا کہ اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ عوامی تشویش نہیں ہے، اصل عوامی مسئلہ بے روزگاری ہے تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کے دوران نوکریوں کیلئے 16 لاکھ افراد کو بیرون ملک بھیجا گیا ہے۔ 
ان کا کہنا تھا کہ 50 لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوئے اور 20 لاکھ کو پاکستانی شہریت حاصل ہوئی لیکن اس مرتبہ 5 لاکھ مہاجرین کی آمد متوقع ہے حالانکہ پاک، افغان سرحد کے ایک بڑے حصے کو سیل کردیا گیا ہے، اگر افغان مہاجرین پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو انہیں شہروں میں منتقل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں غلام سرور خان نے کہا کہ حکومت امریکہ کو کوئی ایئر پورٹ دے گی اور نہ ہی انہیں ڈرون حملوں کیلئے اپنی فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت دے گی، یہ پہلا موقع ہے جب اپوزیشن کی خواہش پر سیاسی قیادت ایک پیج پر جمع ہو کر غیر ملکی افواج کے انخلاءکے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی قومی سلامتی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔