جنرل باجوہ اور جنرل فیض کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والے روتے رہیں، ہوگا کچھ نہیں، ماضی کو بھلا کر آگے بڑھا جائے: پیپلز پارٹی 

جنرل باجوہ اور جنرل فیض کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والے روتے رہیں، ہوگا کچھ نہیں، ماضی کو بھلا کر آگے بڑھا جائے: پیپلز پارٹی 

اسلام آباد : سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو طلب کرنے کا مطالبہ کرنے والے بس پیٹتے رہیں،روتے رہیں، ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ ماضی کو چھوڑیں آگے بڑھیں۔ 

نجی ٹی وی کے پروگرام میں انہوں نے نے تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماضی کے مسائل کو اٹھانے کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر سکا۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کہا کہ جب یہ مسائل پیدا ہو رہے ہوتے ہیں تو اس وقت سب خاموش رہتے ہیں، یہ بزدلی کی نشانی ہے، ایک زندہ قوم کسی غلط عمل پر اس وقت آواز اٹھاتی ہے جب اس کا ارتکاب کیا جا رہا ہوتا ہے۔ پاکستان میں پانچ سال بعد مسائل اٹھائے جاتے ہیں اور جو لوگ پہلے کچھ اور کہتے ہیں، وہ اپنا بیانیہ بدل لیتے ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ قوم اس سب سے الجھ رہی ہے اور ہم نفرت پھیلا رہے ہیں، اب ایک انٹرا پارٹی ڈائیلاگ ہونا چاہیے اور ایک نیا سوشل کنٹریکٹ وضع کیا جانا چاہیے جس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کی رائے شامل ہونی چاہیے۔

قومی اسمبلی کے اسپیکر نے کہا کہ فوج کے ساتھ کوئی بھی مسئلہ عوامی سطح یا سوشل میڈیا پر اٹھانے کے بجائے اسے اندرون خانہ بند دروازوں کے پیچھے حال کیا جانا چاہیے، اس سب کا فائدہ صرف ملک دشمنوں کو ہوا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا 2017 کے فیض آباد دھرنے کے میں ملوث تمام سرکردہ افراد اور حقائق سامنے آنے چاہئیں تو انہوں نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے ہمیں اس کے نتائج کو دیکھنا ہوگا، 75 سے 76 سال گزرنے کے بعد بھی ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکے، اس لیے ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہم ماضی میں ہی چلتے رہیں یا مستقبل بھی کوئی چیز ہے جس میں ہم نے قدم رکھنا ہے، حال اور مستقبل میں زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں اب بھی سوچتا ہوں اور میں پہلے بھی کئی بار کہہ چکا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہونا چاہیے۔

جب راجا پرویز اشرف سے پوچھا گیا کہ کیا سابق فوجی اہلکاروں کو جوابدہ ٹھہرانے کے مطالبات مناسب ہیں تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، پھر آپ اس کے بارے میں باتیں کرتے رہیں اور آپ ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھ پائیں گے، یہ طرز عمل ٹھیک نہیں ہے جہاں ہر دو یا تین سال بعد آپ ماضی کے مسائل اٹھاتے ہیں، جن قوموں نے ترقی کی ہے وہ مستقبل پر نظریں مرکوز رکھتی ہیں۔

مصنف کے بارے میں