بلدیاتی نظام یا لوٹ مار کی آڑھت

بلدیاتی نظام یا لوٹ مار کی آڑھت

آج کل ملک کے مختلف حصوں میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا شور ہے۔ کہیں ان کے منعقد کیے جانے کی تاریخوں کا جھگڑا ہے تو کہیں اس کے طریقہ کار اور حلقہ بندیوں کی لڑائی ہے۔ اس سلسلہ میں عدالتیں کچھ کہہ رہی ہیں، الیکشن کمشن آف پاکستان کچھ موقف اپنائے ہوئے ہے اور حکومت اور سیاستدان کچھ علیحدہ ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ عوام بیچارے ہمیشہ کی طرح بے زبان ہیں انہیں پہلے کسی نے پوچھا اور نہ ہی اب پوچھ رہا ہے اور نہ ہی ان میں خود اتنی سکت ہے کہ یہ اپنی کوئی رائے قائم کر سکیں یا اپنے بھلے برے کا فیصلہ کر سکیں۔
ویسے تو بلدیاتی انتخابات کا انعقاد، ان کا قیام ایک آئینی تقاضا ہے اور انہی اداروں کے ذریعے سڑکوں، گلیوں اور گٹروں وغیرہ کی تعمیر اور دیکھ بھال ہونی چاہیے لیکن بدقسمتی سے وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلی کے اراکین نے یہ ذمہ داری سنبھال لی ہے اوروہ اسمبلیوں میں قومی سطح کے مسائل پر بحث کرنے اور قانون سازی کرنے کے بجائے گٹر صاف کرانے اور گلیاں پکی کرانے اور سڑکیں بنوانے جیسے مسائل میں الجھے نظر آتے ہیں۔
بلدیاتی اداروں کے قیام کی جب بھی بات ہو تو کہا جاتا ہے کہ ان کے ذریعے اختیارات گلی، محلہ، یونین کونسل یا تحصیل کی سطح پر منتقل ہوں گے۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کرنا چاہتا ہے۔ ہمارے ہاں آمریت تو خواہ مخواہ ہی بدنام ہے حقیقت تو یہ ہماری جمہوری قیادت اور جماعتوں کے اندرہی بدترین آمریت موجود ہے۔ پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام غرض کسی بھی جماعت کو لے لیں ان کے پارٹی سٹرکچر میں ہی جمہوریت نام کو بھی نظر نہیں آتی تو ان سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ ان کے طفیل عوام کے جمہوری حقوق کو کوئی فیض پہنچے گا۔ 
مختلف فورمز پر بلدیاتی نظام کی افادیت اور اختیارات کے نچلی سطح تک منتقلی کا جتنا بھی واویلا مچایا جائے، بیشک اسے سیاست کی نرسری یا پھر کچھ بھی اور قرار دیا جائے۔ لیکن وقت نے ثابت کیا ہے کہ یہ ادارے جب بھی وجود میں آئے ہیں توکرپشن میں اضافہ کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اب لوگ انہیں جو بھی نام دیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب تک یہ ادارے سیاست کی نہیں کرپشن کی نرسری ثابت ہوئے ہیں اور شائد آئندہ بھی ایسا ہی ہو۔ 
اگرچہ میرے پاس کسی بھی معاملہ کا تجزیہ کرنے یا سیاق و سباق کی روشنی میں اس کی کوئی پیش گوئی کرنے کے لیے کوئی چڑیا، کوا، کبوتر، طوطا یا ہدہد تو نہیں ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ صحافت کے شعبے میں جو تقریبا ً تیس سال گزارے ہیں اوراس کی 
بنیاد پر جو بھی تجزیے پیش کیے ہیں وہ تقریباً نوے فیصد درست ثابت ہوئے ہیں۔ لہٰذا اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہ میرے پیش کیے گئے تجزیوں کے درست ثابت ہونے کا ریکارڈ کہیں خراب نہ ہو جائے میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے ایک بات عرض کر دوں کہ ان اداروں کے وجود میں آنے سے کسی عام آدمی کا تو جانے بھلا ہو گا یا نہیں لیکن کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کی تعداد میں بڑے پیمانے پر اضافہ ضرور ہو جائے گا۔
اس وقت اعلیٰ عدالتوں، الیکشن کمشن آف پاکستان، حکومت وقت اور سیاسی قوتوں کے درمیان رسہ کشی نے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب سی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔اعلیٰ عدلیہ کی بھرپور کوشش ہے کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا جائے، الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنی بساط کے مطابق ان احکامات پر عملدآمد کرانے کی کوشش بھی کرتا ہے لیکن حکومت میں شامل سیاسی قوتیں اپنی تمام تر صلاحیت بروکار لا کر اس بات کی کوشش کر تی رہتی ہیں کہ کسی نہ کسی طور بلدیاتی انتخابات سے جان چھڑائی جائے۔ اس سلسلہ میں اسلام آباد کے ہونے والے انتخابات تو خیر سے عدالتی کارروائیوں کا شکار ہیں جبکہ کراچی اور حیدرآباد میں دو مرتبہ التوا کے اب امید ہے کہ ان کا انعقاد پندرہ جنوری کو ہو ہی جائے گا۔ 
ہمارے ملک میں چونکہ اصل اپوزیشن جماعت تو کوئی ہے ہی نہیں، ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی طور حکومت میں شامل ہے اسی لیے وہ بیان بازی تو جو مرضی کرتے رہیں لیکن ان کی اصل کوشش تو یہی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور ان بلدیاتی انتخابات کے جھنجھٹ میں نہ ہی پڑا جائے اور لوٹ مار اور کرپشن کرنے کے لیے جو جو بھی علاقے حصے میں آئے ہیں وہاں بلا شرکت غیرے اپنا کام جاری رکھا جائے۔ 
بظاہراعلیٰ عدلیہ کو اس سیاسی بندر بانٹ سے کوئی غرض نہیں، اسی لیے مسلسل وفاق اور تمام صوبوں پر بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے دباو ڈالتے رہتے ہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت کو بھی عدالتوں کو چکر دینا اور مختلف حیلے بہانوں سے وقت حاصل کرنا خوب آتا ہے۔ 
دیکھنے میں آیا ہے کہ ہمارے سیاسی راہنما ایک طرف تو بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور دوسری طرف علاقہ میں ہر سطح پر اپنا اثر رسوخ برقرار رکھنے کے لیے ٹریک ٹو ڈپلومیسی کے تحت ان مجوزہ بلدیاتی انتخابات کے لیے جوڑ توڑاور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ بھی جاری رکھتے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے حلقے کافی چھوٹے ہونے کی وجہ سے ہر کسی کو یہ لگتا ہے کہ وہ یہ انتخاب بہت آسانی سے جیت سکتا ہے اس لیے ایک طرف تو پیشہ ور سیاستدان اپنے بیٹوں، بھتیجوں اور بھانجوں کو سیاست میں متعارف کرانے کے لیے تیار کرتے ہیں تاکہ کہیں یہ چھوٹا فورم بھی ان کے اثر سے باہر نہ ہو جائے تو دوسری طرف چھوٹے سیاسی اور سماجی کارکن، محلے کے رسہ گیر، کن ٹٹے، بدمعاش بھی بلدیاتی انتخابات کی خبریں آتے ہی سیاسی اکھاڑے میں اترنے کے لیے اپنے لنگوٹ کسنے لگتے ہیں۔ 
بے شک الیکشن لڑنا پہلے عام آدمی کے بس کی بات تھی اور نہ ہی اب ہو گی یہ ایک لوٹ مار کی آڑھت ہے۔کرپٹ لوگ بڑی بڑی بولیاں لگا کر نشستیں حاصل کریں گے اور پھر اپنی سرمایہ کاری منافع سمیت وصول کریں گے۔ بالفرض کوئی شریف اور ایماندار آدمی اس سسٹم میں داخل ہونے میں کامیاب ہو بھی گیا تو بھی جلد ہی اسی رنگ میں رنگا جائے گا یا پھر اپنے آپ کو مس فٹ ہی محسوس کرتا رہے گا۔