بدنام سیاسی قیادت

بدنام سیاسی قیادت

 عوام کو شریکِ اقتدارکرنا ہی جمہوریت ہے اوراصل جمہوریت یہ ہے کہ عوامی مسائل میں کمی آئے لیکن رائج جمہوریت سے عوام کا بھلا تو نہیں ہوا مگر مالی بدعنوانی کو فروغ ملاہے پرویز مشرف کے بعد ملک میں کہنے کو توجمہوریت کا تسلسل ہے لیکن کسی سے بھی یہ دریافت کیا جائے کہ کیا عوامی مسائل میں کمی آئی ہے ؟تو جواب مکمل طور پر نفی میں ہوگا زرعی ملک کے عوام کو آٹے سمیت روزمرہ کی اشیا میں کمی کا سامنا ہے مہنگائی تیس فیصد تک پہنچ چکی ہے روزگار کے مواقع مسلسل کم ہورہے ہیں خام مال مہنگا ہونے سے صنعتی پیدوار متاثر ہونے سے برآمدات میں کمی ہونے لگی ہے قرضوں میں بے تحاشا اضافے سے تاریخ میں پہلی بار وطنِ عزیز پر دیوالیہ کے بادل منڈلا رہے ہیں لیکن مذکورہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے سیاسی قیادت بے نیاز نظر آتی ہے البتہ اقتدارکی جنگ میں سب چوکس ہیں ایسے طرزِ عمل سے اُس کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے اور عوام کے ذہنوں میں یہ خیال تقویت پکڑ رہا ہے کہ موجودہ سیاسی قیادت کو ملک وقوم سے زیادہ اقتدار سے دلچسپی ہے مگر لگتا ہے کہ سیاسی قیادت کولاحق خطرات کا احساس تک نہیں تبھی بدنامیاں سمیٹنے اور حریف سیاسی قوتوں کو بدنام کرنے کے مقابلے سے دستبردار ی پر تیار نہیں سیاسی ماحول اتنا پراگندہ ہو چکا ہے کہ آج ملک کے سیاسی منظر نامے پر نگاہ ڈالتے ہیں تو کوئی ایک بھی چہرہ نیک نام نظر نہیں آتا ۔
 سیاسی قیادت کو بدنام کرنے میں کارفرما ہاتھ بارے جاننے کی اگر کوشش کریں تو اِس میں کوئی شائبہ نہیں کہ کلیدی کردارکسی اور کا نہیں سیاسی قیادت کا اپناہی ہے ابھی کل تک پی پی اور ن لیگ کی قیادت ایک دوسرے کونااہل ،اغیارکے ہمدرد اور وطن دشمن کہنے میں مصروف تھیں لیکن نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان طے پانے والے میثاقِ جمہوریت کے نتیجے میں اب بائیں بازوکی سیاست کرنے والی پی پی اوردائیں بازوکی علمبردار ن لیگ جیسی متحارب قوتیں اتحادکر چکی ہیں یہ صورتحال بنانے اور معاملات کو اِس نہج تک لانے میں پی ٹی آئی کا اہم کردار ہے جس نے کسی اور جماعت کو شریکِ اقتدار کرنے سے گریز کیا اور بے لچک سیاست کی اگر تحمل، مذاکرات اور افہام وتفہیم سے کام لیا جاتا تو آج نفرت میں درجن بھر جماعتیں ایک ہو کر تبدیلی کی راہ ہموار نہ کرپاتیں مگر بات پھر وہی ہے کہ اقتدار کے لیے جنونی ہوکر غیر جمہوری اور بے اصولی کی ایسی سیاست نے ہی سیاسی جماعتوں پر عوام کی بے اعتباری میں اضافہ کیا ہے اور اسی وجہ سے عوام اور ملک کو بے پناہ مسائل کا سامنا ہے لیکن سیاسی قیادت مسائل سے بے نیاز ایک دوسرے پر بڑھ چڑھ کر الزام تراشی  میں مصروف ہے جس کی بناپرساکھ سے محرومی کا مسلہ درپیش ہے مزید کچھ عرصہ ایسے ہی حالات رہے تو جس طرح پی پی اور ن لیگ کی ایک دوسرے کو بدنام کرنے کی مُہم کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو آگے آنے کا موقع ملا ممکن ہے جلد ہی حالات ایسا رُخ اختیارکر جائیں کہ تینوں جماعتوں کوپچھاڑکر نئی سیاسی قیادت سامنے آجائے اور سابق حکمران جماعتیں ایک دوسرے کو بدنام 
کرتے کرتے عوام کی تائید وحمایت سے محروم ہو جائیں موجودہ سیاسی قیادت سے رائے دہندگان بدظن ہوتے جا رہے ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ عام انتخابات ہوں یا ضمنی،ووٹ کاسٹ کرنے کی شرح میں مسلسل کمی واقع ہونے لگی ہے مگرسیاسی قیادت کو اِس کا احساس ہے ایسے آثار نظر نہیں آتے کیونکہ بددستور ایک دوسرے کو بدنام کرنے میں مصروف ہے اگر طرزِ عمل پرجلد نظرثانی نہ کی گئی جس کا بظاہر امکان کم ہے تو اِس سے موجودہ سیاسی قیادت کا مستقبل مخدوش ہونا یقینی ہے ۔
ملک کے سیاسی حالات اِ س حد تک خراب ہو چکے ہیں کہ حکمران اتحاد میں شامل کوئی ایک چہرہ بھی نیک نام نہیں اسی طرح اپوزیشن رہنما بھی بدعنوانی کے سنگین الزامات کی زد میں ہے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو منی لانڈرنگ کے مقدمات کا سامنا ہے مولانا فضل الرحمٰن اور آصف زرداری کے حوالے سے بھی نہ صرف لمبامال بنانے کی داستانیں گردش کررہی ہے بلکہ مقدمات کی مختلف اِدارے انکوائریوں میں مصروف ہیں جن کی روشنی میں عدالتی کاروائیاں بھی جاری ہیں لیکن صورتحال میں اب جو ڈرامائی تبدیلی آئی ہے وہ یہ ہے کہ عمران خان کی نیک نامی ، پارسائی اور اُجلاپن بھی داغدار ہو چکا ہے توشہ خانہ کے علاوہ بھی وہ مختلف نوعیت کے کئی الزامات کی زد میں ہیں اور کچھ ایسے سیاسی کردار وں یا شخصیات پر اُنگلیاں اُٹھنے لگی ہیں جوماضی میں کسی نہ کسی حوالے سے جماعت یا براہ راست اُن سے منسلک ہیں مستقبل میں مزید الزامات کا امکان ہے جس سے نیک نامی ،پارسائی اور کردار کا اُجلا پن بدنامی کا پیراہن پہن لے گا اور وہ بھی دیگر سیاسی قیادت کی طرح بدنام ہو کررہ جائیں گے لہذا بہتر یہی ہے کہ سیاسی قیادت ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے کارکردگی کی طرف دھیان دے وگرنہ حالات اِس حد تک ناہموار ہو سکتے ہیں کہ سیاسی طور پر زندہ رہناہی دشوار ہوکر رہ جائے ۔
ملک کی ساری سیاسی قیادت بدعنوان نہیں ہو سکتی مگر ذرائع ابلاغ سے ایسا ہی تاثر ملتا ہے حالانکہ بے سروپا الزام تراشی کی بجائے اِداروںکواگر بدعنوانی کے ثبوت فراہم کیے جائیں تو کارروائی ممکن ہے یوں سیاست میں دولت جمع کرنے یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے خرچ کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہوسکتی ہے نیز سیاسی قیادت لب کشائی کرتے ہوئے قومی مفاد کے منافی بات کرنے سے گریز کرے کیونکہ ایک دوسرے کو غدار اور ملک دشمن کہنے کا نقصان کسی اور کو نہیں موجودہ سیاسی قیادت کوہی ہورہا ہے موجودہ حکمران اتحاد چاہتا ہے کہ کسی طرح مشرقی ہمسائے سے تعلقات بہتر اور تجارت بحال ہو جبکہ عمران خان نے اقتدار سے بے دخلی کو عالمی طاقت کی سفارتی مُہم جوئی قرار دیا ہے بھارت سے تعلقات کی بہتری اور تجارت کی بحالی کی منزل تو حاصل نہیں ہو سکی مگر چین خفاضرور ہو گیا ہے اسی طرح امریکی انتظامیہ بھی پاکستان سے ناخوش ہے جس سے ملک کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے محض اپنی سیاست چمکانے کے لیے ریاستی مفاد سے کھلواڑ حب الوطنی نہیں کیا ہی بہتر ہوتا کہ عمران خان اپنے دورِ حکومت میں کوئی ایسا باختیار عدالتی کمیشن بنا دیتے جو مالی بدعنوانی کے مقدمات ثابت کرنے کے لیے ثبوت تلاش کرنے پرمامور ہوتا اور اِن ثبوتوں کی بناپربدعنوانی میں ملوث سیاسی افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کی کوشش کرتے مگر ایسا کچھ کرنے کی بجائے انھوں نے تمام تر توجہ حریف سیاستدانوں کو بدنام کرنے پر مرکوز رکھی حیران کُن امر یہ ہے کہ موجودہ حکمران بھی الزام تراشی سے آگے کارروائی کی طرف نہیں بڑھ رہے ذرائع ابلاغ میں تو شہ خانے سے لیکر تبادلوں کے زریعے مال بنانے ،زمینوں پر قبضوں سمیت مختلف الزامات کی بازگشت تو سنائی دیتی ہے مگر ثبوت تلاش کرنے کا کام نہیں ہورہااسی لیے الزام تراشی کو بھی بدنام کرنے کا حصہ سمجھاجارہا ہے بات یہ ہے کہ اگر متعلقہ طاقت و عدالت کے مراکز کو کارروائی کے لیے مناسب ثبوت فراہم کیے جائیں تو نہ صرف ملک سے بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہے بلکہ سیاست میں زر اور زمین کے استعمال کا سلسلہ بھی ختم ہو سکتا ہے مگر اِس کی بجائے ازسرے نو آڈیو اور ویڈیو لیک کرنے کا غلیظ دھندہ شروع ہے جس کا کسی کو فائدہ نہیں ہو سکتا صرف سیاسی قیادت کو نقصان ہو سکتاہے آڈیو اور ویڈیو صحیح ہے یا غلط، اگر ذمہ داران کارروائی نہیں کرتے تواِس کاایک ہی مطلب ہے کہ سیاسی قیادت کو بدنام کرنا مطلوب ہے ایسی حرکتوں سے ہی غیر جمہوری قوتوں کو آگے آنے اور جمہوریت کو کمزور کرنے کا بہانہ ملتا ہے۔

مصنف کے بارے میں