دانیال کی دلیل

دانیال کی دلیل

ہر بڑی سیاسی جماعت کی طرح ن لیگ میں رہنماؤں کے آپس میں اختلافات ہونا کوئی انوکھی بات نہیں لیکن ا حسن اقبال پر تنقید کے دوران دانیال عزیز نے بہت جامع انداز میں مسلم لیگ ن کی اصل کمزوری کا ذکر بھی کردیا، اہم بات یہ ہے کہ جب کسی بڑی کمزوری کی درست نشاندہی ہو جائے تو پھر اس پر قابو پانے کی جانب بڑھا جانا چاہیے کیونکہ پارٹی اور سیاست بچانے کیلئے ایسا کرنا لازم ہو جاتا ہے۔ دانیال عزیز  نے کہا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنا موقف لوگوں تک پہنچا ہی نہیں سکے، ہماری جماعت کا المیہ یہ ہے کہ ہمارا ”انفارمیشن فیلئر“ ہوا ہے، مریم اورنگ زیب عوام کو بتا ہی نہیں پائیں کہ پی ٹی آئی نے پاکستان میں کتنا نقصان کیا ہے، پی ٹی آئی نے تو پاکستان کو شکست و ریخت سے دوچار کردیا ہے اور وہ کسی ایک سطح پر نہیں بلکہ تمام سطحوں پر، اس کے حوالے سے مواد، ریسرچ اور تفصیلات لیکر ہم سامنے ہی نہیں آئے۔ اب اگر دن کی چالیس پریس کانفرنسیں کرلیں جس میں صرف بیانات ہوں اور ایسی باتیں ہی نہ ہوں جو عوام کو سمجھ آسکیں تو پھر یہ کمیونیکیشن سٹرٹیجی نہیں ہے کیونکہ اگر ابلاغی حکمت عملی تیار ہو تو پہلے طے کیا جاتا ہے کہ آپ کے مقاصد کیا ہیں لیکن یہ چیز تو کبھی ہوئی نہیں، اسی وجہ سے آج ہم یہ خمیازہ بھگت رہے ہیں، آج بھی مجھے آکر ٹی وی پر بتانا پڑرہا ہے کہ میاں نواز شریف ایک لفظ پر ڈس کوالیفائی ہوئے تھے۔ لفظ کا نام“ ریسیو ایبل“ ہے جو کہ بلیک لا ڈکشنری میں ہے ہی نہیں، اس پر بھی کہا جارہا ہے کہ نواز شریف لاڈلے ہیں، ان کا موازنہ عمران خان سے کیا جارہا ہے حالانکہ وہ تحریک عدم اعتماد سے نکلا، ملک میں بدترین مہنگائی کی وجہ عمران خان ہے لیکن سولہ مہینے کی حکومت میں بھی کسی نے لوگوں تک یہ سچ پہنچانے کی کوشش ہی نہیں کی”دانیال عزیز کا یہ تجزیہ ناقابل تردید حقائق پر مبنی ہے۔اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ جس طرح عالمی اسٹیبلشمنٹ نے بین الاقومی صورتحال کو اپنی مرضی کا رنگ دینے کیلئے میڈیا کو سب سے بڑا ہتھیار بنایا اسی طرح سے مقامی اسٹیبلشمنٹ نے قومی وسائل کا بھاری حصہ نام نہاد ففتھ جنریشن میڈیا وار پر جھونکا اور یہ کچھ پی ٹی آئی کیلئے کیا گیا، اب یہ مہم جوئی الٹی پڑی ہے تو اس میں بنیادی کردار غلط میڈیا پالیسی کا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اپنے میڈیا اور سوشل میڈیا ونگز کو مضبوط، متحرک کرتیں اور جرأت مندی کے ساتھ اپنا موقف پیش کرتیں۔ دیہی سندھ کی سیاست پر مضبوط گرفت رکھنے والی پیپلز پارٹی کو زیادہ پروا نہیں، جے یو آئی، ایم کیو ایم اور اے این پی کے اپنے ایریاز ہیں مگر ن لیگ ایک قومی جماعت کے طور پراس حوالے سے کوتاہیوں کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہ کھلی حقیقت ہے کہ مریم اورنگ زیب اطلاعات کے شعبے میں مکمل طور پر ناکام رہیں۔ میڈیا میں فدویانہ حد تک اچھے تعلقات رکھ کر بھی اپنا موقف پیش نہیں کیا گیا تو پھر وزرات کا کیا فائدہ؟ مریم اورنگ زیب نے زیادہ تر اینکروں کو بھائی بنا رکھا ہے اور یہی اینکر اپنی سکرینوں پر بھائی
لوگ بن کر منفی تبصروں کے ذریعے لیگ کے پرخچے اڑاتے پائے جاتے ہیں۔بھائی چارہ تو آپ کا فواد چودھری کے ساتھ بھی ہے مگر کیا حاصل ہوا؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ گھٹیا انداز میں تضحیک کرنے اور غلیظ الزامات لگانے والے اینکروں کو تقریبات میں سرعام تھپڑ مارے جائیں جس کا عملی مظاہرہ فواد چودھری نے وزیر ہوتے ہوئے دنیا کو کرکے دکھایا لیکن اتنا تو ہونا چاہیے کہ انہیں بھائی بھائی کہہ کر سر پر چڑھانے کے بجائے مہذب مگر ٹھوس طریقے سے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا جائے، جھوٹ بولنے سے باز نہیں رکھ سکتے تو کم ازکم اخلاقیات کی حدود پھلانگنے سے روکا جائے لیکن یہاں فکر کس کو ہے؟ ن لیگ کے کئی لیڈر ایسے بھی ہیں کہ ٹائیاں باندھ کر ایسے اینکروں کے پروگرامات میں جا گھستے ہیں جو پارٹی لیڈر شپ پر مسلسل ذاتی اور رکیک حملے کرکے بھد اڑاتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کی میڈیا پالیسی پر اس لیے لکھنا پڑ رہا ہے کہ بار بار حکومت میں آنے کے امکانات کے باعث اس کی غلط حکمت عملیوں کا خمیازہ صرف پارٹی کو ہی نہیں میڈیا انڈسٹری اور پورے ملک کو بھگتنا پڑتا ہے،غضب خدا کا پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے بعد بھی اطلاعات کے سرکاری اداروں میں وہی عناصر جم کر بیٹھے ہیں جنہیں ففتھ جنریشن وار کیلئے سیاستدانوں،غیر جانبدار ججوں اور آزاد میڈیا پر حملوں اور ملک میں غیر یقینی و افراتفری پھیلانے کے لیے بھاری تنخواہوں اور لمبی چوڑی مراعات دے کر بھرتی کیا گیا تھا۔ ان سے اکثر آج بھی اسی ڈگر پر چل رہے ہیں، اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ ان میڈیا عناصر کے پیچھے“ نا معلوم افراد“ ہیں، پھر بھی یہ سوال تو اٹھتے ہیں کہ ان کو کس نے سمجھانا ہے اور قائل کرنا ہے کہ ملکی معاملات درست انداز میں چلانا ہیں تو تمام پالتو ہرکارے ایک سائیڈ پر لگانا پڑیں گے۔ مریم اورنگ زیب اور پارٹی کا پورا میڈیا ونگ یہ بتائے کہ عوام کی نظروں میں پارٹی لیڈر شپ کا امیج کس نے بچانا اور بنانا تھا۔ کارکردگی کا جائزہ لینے کیلئے صرف ایک مثال کافی ہے، میاں شریف مرحوم کا نام صرف اور صرف بابائے صنعت کے طور ہی جانا جاتا تھا، آج کیا عالم ہے؟ نئی نسل کا میاں شریف کے بارے میں تاثر کیا ہے؟ عمرانڈو طبقہ انہیں اس حد تک سکینڈلائزڈ کرتا ہے کہ ان سطور میں لکھنا مناسب نہ ہوگا،اب جبکہ نظر آرہا ہے کہ ن لیگ کیلئے اقتدار کی راہ ہموار کی جارہی ہے، پارٹی لیڈر شپ کی سعادت مندی سے بھی یہی نظر آ رہا ہے، ایسے میں مشورہ تو دیا جاسکتا ہے کہ ایک پیج پر ہونا ایک حد تک ہی اچھی بات ہے لیکن سب کو اپنے اپنے حصے کا کام خود ہی کرنا پڑتا ہے۔ میڈیا جیسے شعبے میں کسی دوسرے پر انحصار نہیں کیا جاسکتا۔ اسٹیبلشمنٹ پر بھی نہیں کیونکہ اس کے اپنے مخصوص مقاصد ہوتے ہیں اور طاقت اتنی زیادہ کہ جب چاہیں ٹکر کے لوگوں کو اوقات سے باہر ہونے پر اتنا ٹائٹ کردیں کہ پھر ان کی آواز بھی نہ نکل سکے،جمہوریت کے بچاؤ اور فروغ کیلئے ن لیگ ہی نہیں تمام سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل پروفیشنل انداز میں چلانا لازمی ہے، آنے والے حالات میں پہلے سے بھی کہیں زیادہ ضروری ہوگا کہ میڈیا سیل مثبت جارحانہ حکمت عملی کے تحت چلائے جائیں۔ یقیناً ہر سیاسی جماعت میں ایسے رہنما موجود ہیں جو اپنی پارٹی پالیسی اور قیادت کے امیج کو خراب کرنے کی منظم اور مربوط کوششوں کو جوابی حکمت عملی سے ناکام بنا سکتے ہیں، تھوڑا دماغ استعمال کرنا ہو گا، کچھ جرأت دکھانا ہو گی، چند سال قبل ن لیگ کے اہم اور ڈیرے دار وفاقی وزیر نے ایک محفل میں شکایت کے انداز میں کہا کہ فلاں تجزیہ کار ہمارے نام لے کر ننگی گالیاں دیتا ہے، یہ کون سی صحافت ہے؟ میں نے جواب دیا یہ صحافت بالکل نہیں لیکن یہ کون سی سیاست ہے کہ آپ اتنے“ بڑے طرم خان“ ہوکر خاموشی سے گالیاں سن رہے ہیں، اس واقعہ سے اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ وزیر اطلاعات کمزور ہو تو پوری حکومت کمزور پڑ جاتی ہے، دیکھنا ہوگا کہ ن لیگ ماضی کے تلخ تجربات سے کوئی سبق سیکھنے پر تیار بھی ہے یا نہیں۔ پرانے طور طریقوں پر چلنے کا انجام اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے جو اب تک ہوتا آیا ہے،چلتے چلتے یہ بھی دیکھ لیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے میڈیائی کارندے آہستہ آہستہ اپنی پرانی اصلیت دکھانا شروع ہوگئے ہیں۔ انہیں “سمجھایا“ گیا ہے کہ ادارے کو کچھ نہیں کہنا باقی جس پر چاہو کیچڑ اچھالو۔ 2014 کی طرح سے اب ان کا نشانہ اسٹلیبشمنٹ ہے نہ پی ٹی آئی، باقی سب پارٹیاں اور ادارے ٹارگٹ ہیں جن کے متعلق بدگمانیاں پھیلانے کی مہم نئے سرے سے شروع ہوچکی ہے۔