ان کے اعمال ضائع ہوگئے، اور اُنہیں خبربھی نہ ہوئی

ان کے اعمال ضائع ہوگئے، اور اُنہیں خبربھی نہ ہوئی

قارئین کرام، شیخ رشید احمد کو دعویٰ ہے کہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا پسندیدہ بندہ ہوں، اور یہ کہ میں اللہ تعالیٰ کے بہت قریب ہوں، شاید وہ برسوں اقتدار میں رہنے کو قربت خداکا ذریعہ سمجھتے ہیں، حالانکہ بقول باب علم حضرت علی کرم اللہ وجہہ، منصب واقتدار آزمائش ہوتی ہے، جس میں انسان کا ظرف باہر آجاتا ہے، شیخ رشید احمد کا اپنے ہم وطنوں سے حسن ظن ہے کہ وہ ان کا راولپنڈی سے شروع ہونے والا آغاز سفر بھول چکے ہوں گے۔ 
جب کا شیخ اور اب کا اپنے آپ کو الشیخ سمجھنے والا، اکثر وزیر اطلاعات رہ کر، اہل وعیال کے خرچے سے بچتا رہا، مگر افسوس کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کے ارمانوں کی تکمیل میں بغیر سہرہ باندھے ہی مشغول رہا، اس حوالے سے میں جبراً قلم کو قابوکررہا ہوں کیونکہ حکم خداوندی ہے، کہ دوسروں کے عیبوں پہ پردہ ڈالو، قیامت والے دن روز محشر اللہ آپ کے گناہوں پر پردہ ڈالے گا، وگرنہ آج کی کامیاب شادی شدہ زندگی گزارنے والی کچھ عفیفائوں کے نام شاید لبوں پہ آہی جاتے، جوزبان زدعام ہیں، چونکہ اس وقت مجھے اور بھی بہت سے کام ہیں، لہٰذا اسے مؤخر کردیتا ہوں کیونکہ بقول امجد اسلام امجد 
نئے سخن کی طلب گار ہے نئی دنیا !
وہ ایک بات پرانی کہیں تو کس سے کہیں 
سلیں ہیں برف کی سینوں میں اب دلوں کی جگہ 
یہ سوزدردنہانی کہیں تو کس سے کہیں
مگر یہ تو ہوسکتا ہے کہ میں اس درد کی کہانی خود شیخ رشید احمد کو سنائوں کہ نہانی کے ساتھ اور لفظ بھی لگ سکتا ہے ، مگر میں نے اجتناب برتا جب راولپنڈی گارڈن کالج سے انہوں نے فاطمہ جناح محترمہ مادرملت سے اپنی سیاسی ’’علت‘‘ کا آغاز کیا تھا۔ 
مادرملت جنہیں اس وقت کے دانشواران ، اور اکابرین نے شیشے میں اتار کرمیدان سیاست کی منافقت کی دلدل میں دھکیل دیا تھا اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا، ویسا ہی نکلا، اور یوں شیخ رشید ہاتھ ملتے رہ گئے۔ 
صدر جنرل محمد ایوب خان، میدان میں تنہا رہ گئے، اور یوں وہ مکمل طورپر وطن عزیز کے سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے غالباًیہی وہ وقت تھا کہ درپردہ شیخ رشید احمدکا گیٹ نمبر 4پر آنا جانا شروع ہوگیا، اور ان پر اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ ہونے کا لیبل لگ گیا، اور یوں وہ تب سے پھولے نہیں سمائے جاتے بلکہ پھول کر کپا ہوگئے ہیں بہرکیف شیخ رشید احمد 1991ء میں میاں نواز شریف کی کابینہ میں پہلی دفعہ وزیر لگے، قارئین ایک بات آپ کے لیے دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی جیسے میاں محمدنواز شریف نے شیخ رشید احمد کو پہچانا، ویسے ان کے سگے بھتیجے جن کو انہوں نے ممبر قومی اسمبلی بھی بنوالیا ہے، وہ بھی نہیں پہچانتے، اس کی دوسری مثال یوں لے لیں، امریکہ کے ہر نئے منتخب صدر کی روایت ہے، کہ جب وہ منتخب ہوتاہے، تو وہ دنیا کے ملکوں کے حکمرانوں کو اور خاص طورپر اپنے اتحادی ملکوں کے حکمرانوں کو ضرور فون کرتا ہے، جس کو کرٹسی کال کہتے ہیں، مگریہ پہلی دفعہ ہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ہمارے سابق وزیراعظم عمران خان کی شدید خواہش کے باوجود کبھی فون نہیں کیا، دنیا بھرمیں اس کا مطلب ہے کہ جتنا جوبائیڈن نے عمران خان کو پہچانا ہے، ویسے اسے کسی نے نہیں پہچانا، اوریہی صدمہ انہیں باقی زندگی رہے گا، حفیظ اللہ نیازی نے خاک پہچانا جو خود انگلی پکڑ کر سیاست میں لائے تھے بہرکیف میں بات کررہا تھا، شیخ رشید احمد کی سیاست کی جو خوشامد پہ شروع ہوتی ہے، اور خوشامد پہ ختم ہوتی ہے۔ میاں محمد نواز شریف نے ان سے اس لیے منہ موڑا، کہ میاں نواز شریف کے جلاوطن ہوتے ہی شیخ رشید احمد نے جنرل مشرف کی خوشامد شروع کردی اور ان کی کابینہ میں شامل ہوئے، حتیٰ کہ ان کی والدہ محترمہ کو اس طرح سے ہاتھوں میں لیا کہ وہ ہمیشہ جنرل مشرف سے ان کی سفارش کرتیں کیونکہ جنرل مشرف اپنی والدہ کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے۔ 
سمجھ نہیں آتی کہ داستان خوشامد جو پندرہ مرتبہ وزارت پہ مسلط ہونے پر محیط ہے کہاں سے شروع کروں اور کہاں ختم کروں، شیخ مجیب الرحمن کی پارٹی عوامی لیگ یہ اپنی پارٹی کا نام بھی شیخ صاحب نے عوامی مسلم لیگ رکھ لیا، حیرت کی بات ہے کہ اس پارٹی کا سوائے شیخ رشید احمدکے اور کوئی ممبر قومی اسمبلی نہیں، مگر اس کے باوجود وہ وزارت کے مزے لوٹ رہے ہیں شیخ رشید احمد نے ایک دن پہلے جو ببانگ دہل ، سرعام اعلان کیا تھا، دراصل ایسی پشین گوئی اللہ تعالیٰ نے ان کے منہ سے نکلوا کر اُنہیں رسوا کرنا تھا جو شیخ رشید احمد نے کہہ دیا، کہ کل مسجد نبوی ؐ پہ جو وزیراعظم کے ساتھ سلوک ہوگا، وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے، حالانکہ سورۃ الاحزاب میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اے لوگو ،جو ایمان لائے ہو، اپنی آواز نبی ؐکی آواز سے بلند نہ کرو، اور نہ ہی نبی ؐ سے اونچی آواز میں بات کیا کرو، جس طرح تم آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہو کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارا کیا کرایا سب غارت ہو جائے، اور تمہیں خبر بھی نہ ہو احترام نبی ؐ میں مزید فرمایا، کہ نبی ؐ کو بہتر ہے کہ دستک دے کر، یا آواز دے کر نہ بلایا جائے، بہتر یہ ہے کہ خود ان کے باہر آنے کا انتظارکیا جائے۔ غالباً یہ پہلا کالم ہے، کہ گستاخی رسولؐ پہ شیخ رشید احمد کوصرف اتنابتانا چاہتا ہوں کہخوشامد کی اس انتہا پہ خود توڈوبے ہو، عمران خان ، جو تحریک انصاف کے ترانوں پہ تسبیح پڑھنے کے بجائے، تسبیح کے پھندے ، سر اور لے پہ نچاتے رہتے ہیں ان کو بھی لے ڈوبے ہو انہیں کے بارے میں فرمان الٰہی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو، تمہارا کیا کرایا غارت ہوجائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو۔(جاری ہے) 

مصنف کے بارے میں