عارف علوی۔ اسحاق ڈار ملاقاتیں: نتیجہ نکلے گا؟

عارف علوی۔ اسحاق ڈار ملاقاتیں: نتیجہ نکلے گا؟

صدر مملکت عارف علوی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے درمیان پے در پے ملاقاتوں اور ان کے نتیجے میں باہر نکلنے والی خبریں اور معلومات انتہائی حوصلہ افزا ہے۔ اسحاق ڈار کے بارے میں عارف علوی کا خیر سگالی کا بیان انتہائی حوصلہ افزا ہے اور پھر ڈار صاحب کی طرف سے پی ٹی آئی مذاکراتی وفد کے ممبران کے نام مانگنا اس سے بھی زیادہ حوصلہ افزا اقدام ہے۔ جاری مسموم سیاسی فضا میں ایسے حالات کا ظہور یقینا ایک خوشگوار اور امید افزا بات ہے جس کی تعریف کی جانی چاہئے۔
عمران خان اپریل 2022 میں اقتدار چھن جانے کے بعد مسلسل احتجاج کی حالت میں ہیں انہوں نے گزرے 7/8 ماہ کے دوران بڑے بڑے دعوے کئے۔ بڑے بلند آہنگ بیانیے تشکیل دیئے۔ لانگ مارچ اور دھرنے کی کاوشیں کیں۔ حکومت سے فوری الیکشن کی تاریخ لینے کے ہزار جتن کئے لیکن انہیں کسی بھی محاذ پر کامیابی نہیں مل سکی۔ گزرے وقت کے دوران انہوں نے یوٹرن لینے اور ناکامیوں کی قابل رشک مثالیں قائم کیں۔ وہ مئی میں پاور شو کرنے میں ناکامی پر دلبرداشتہ نہیں ہوئے اعتراف شکست کے بعد نئے سرے سے اگلے لانگ مارچ اور دھرنے کی تیاریوں میں لگ گئے۔ بھرپور انداز اور بلند آہنگ میں تیاریوں کے بعد انہوں نے ایک نئے انداز میں مارچ کا آغاز کیا لیکن روزِ اوّل سے ہی مارچ کے شرکا کی مایوس کن تعداد کی خبریں آنا شروع ہو گئیں تو عمران خان ایک بار مایوس نظر آنے لگے وزیر آباد میں ان پر قاتلانہ حملے نے انہیں فیس سیونگ کا موقع فراہم کیا مارچ تعطل کا شکار ہوا۔ پھر اس قتل کی ایف آئی آر کٹوانے کے سلسلے میں انہوں نے ایک نئی محاذ آرائی شروع کی۔ یہ محاذ آرائی ان کے اپنے اتحادی کے ساتھ محاذ آرائی میں بدل گئی۔ ویسے قاتلانہ حملے کے روزِ اوّل سے ہی معاملہ مشکوک نظر آ رہا تھا۔ مبینہ قاتل موقع پر ہی گرفتار بھی ہوا اور پنجاب پولیس نے اس کے اعترافی بیان کی ویڈیو بھی لیک کر دی لیکن عمران خان تو 3 بڑوں کے خلاف ایف آئی آر کٹوانے پر اصرار کرتے رہے اس مطالبے کو انہوں نے ایشو بھی بنایا۔ لانگ مارچ کی ناکامی کو چھپانے کی کوشش بھی کی لیکن انہیں حقیقی ریلیف نہ مل سکا۔ دو اہم تعیناتیوں کے حوالے سے انہوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ ”ایسے نہ ہو ویسے نہ ہو“ لیکن ویسا ہی ہو گیا جیسا وہ نہیں چاہتے تھے یہ بہت بڑی ناکامی تھی پھر انہوں نے نیم دلی سے لانگ مارچ کیا جو فلاپ ہو گیا اور عمران خان کی سیاسی و عوامی پذیرائی کا پول کھل گیا۔ اب عمران 
خان حکومت کو دباؤ میں لانے اور سیاسی افراتفری بڑھانے اور بڑھاتے ہی چلے جانے کے لئے اسمبلیوں کی تحلیل کی دھمکی دے رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب اسمبلی کی تحلیل کے ذریعے وقتی طور پر جاری سیاسی بحران میں شدت آ سکتی ہے عمران خان حکومت کو مسلسل پریشان کرنے اور سیاسی افراتفری پھیلانے اور پھیلاتے ہی چلے جانے کی حکمت عملی پر چل رہے ہیں لیکن حکومت بھی ان کی چالبازیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور عزم بالجزم کے ساتھ ڈٹی ہوئی ہے۔
اس بارے میں دو آرا نہیں ہیں کہ سیاسی افراتفری کے نتیجے میں حکومت کو معاشی بہتری کے اقدامات میں وہ کامیابیاں نہیں مل پا رہی ہیں جو ڈولتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے ضروری ہیں ناقابل برداشت تجارتی خسارہ، قرض ادائیگیوں کا بوجھ اور مہنگائی کا ناقابل بیان بوجھ ایسے عوامل ہیں جو حکومتی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں عمومی تاثر یہی ہے کہ حکومت سیاسی فرنٹ پر کارکردگی دکھانے کے باوجود اقتصادی فرنٹ پر عوام کے حسب منشا کارکردگی دکھانے میں قطعاً ناکام ہے ویسے ن لیگی قیادت سے عوام کی توقعات بھی زیادہ ہیں ن لیگ اپنے سابقہ ادوارِ حکمرانی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر چکی ہے معاشی حوشحالی اور عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے ن لیگی قیادت خوشنما ریکارڈ کی حامل ہے لیکن جاری حالات و واقعات میں عوام کی توقعات پوری نہیں ہو رہی ہیں مستقبل قریب میں معاشی حالات میں بہتری ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے عالمی کساد بازاری، یوکرین کی جنگ اور دیگر ایسے ہی حالات کے باعث گلوبل اکانومی بھی شدید مسائل کا شکار ہے پاکستان کیونکہ عالمی معیشت کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کے اندرونی سیاسی حالات بھی ٹھیک نہیں ہیں اس لئے معاشی معاملات کی ابتری سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ عمران خان نے اپنے 3.5 سالہ دور حکمرانی میں قومی معیشت کو اس ڈگر پر چلا دیا ہے کہ اسے بیک ٹو ٹریک لانا سہل نہیں ہو گا۔ معاشی حالات درست نہیں ہیں۔ معروف معاشی ماہر شبر زیدی تو برملا کہہ رہے ہیں کہ پاکستان ٹیکنیکل طور پر ڈیفالٹ کر چکا ہے اور یہ بات انہوں نے دسمبر 2021 میں بھی کہی ہے عملاً دیکھا جائے تو ان کی بات درست نظر آتی ہے پاکستان نہ صرف اپنی درآمدات کی ادائیگیاں کرنے کے قابل نہیں ہے بلکہ اپنے ذمے عالمی ادائیگیاں بھی اس کے بس میں نہیں ہیں یہ سب کچھ اظہر من الشمس ہو چکا ہے اس بارے میں دو آرا نہیں پائی جاتی ہیں حکومت اپنے تئیں ہاتھ پاؤں مار رہی ہے ایک طرف آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات جاری رکھنے کی کاوشیں کر رہی ہے دوسری طرف دوست ممالک بشمول چین، سعودی عرب، ترکی، یو اے ای وغیرہم کے ساتھ معاملات کر کے ڈالر کے حصول میں مصروف ہے تاکہ ہماری زرمبادلہ کی ضروریات کسی نہ کسی حد تک پوری ہو جائیں اس محاذ پر حکومت کو قابل رشک کامیابیاں بھی مل رہی ہیں لیکن زرمبادلہ کی آمد اور خرچ میں گیپ بہت بڑا ہے جو اس طرح کی کاوشوں سے بھرنا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے مہنگائی کا جن بوتل سے نکل کر بے قابو ہو چکا ہے مستقبل قریب میں اس جن کو بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ حالات خاصے پریشان کن ہیں ایسے میں اگر عمران خان نے جیسا کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ 20 دسمبر تک اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں گی، ایسا کر دیا تو ہماری سیاست ایک بڑے بحران کا شکار ہو جائے گی ویسے تو حکومت نے ایسے بحران سے نمٹنے کی تیاریاں بھی کر رکھی ہیں اور پیش بندیاں بھی جاری ہیں۔ صدر۔ ڈار ملاقاتیں اسی سلسلے کی کڑی نظر آ رہی ہیں۔ دیکھتے ہیں آنے والے دنوں میں عمران خان کیا گل کھلاتے ہیں۔