کپاس کے کاشتکار جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے 70-80 من پیداوار حاصل کر سکتے ہیں،زرعی ماہرین

 کپاس کے کاشتکار جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے 70-80 من پیداوار حاصل کر سکتے ہیں،زرعی ماہرین

فیصل آباد:یوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (AARI) کے مطابق کاشتکار جدید تکنیک، مشینری اور تصدیق شدہ بیج  کے استعمال سے زیادہ پیداوار اور منافع حاصل کر سکتے ہیں۔

 اے آر آئی کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عابد محمود  کا کہنا تھا  کہ کپاس کے کاشتکار بالخصوص 70-80 من (40 کلوگرام) کی پیداوار حاصل کر سکتے ہیں، نئی ہائبرڈ بیجوں کی اقسام اور تازہ ترین فارم کے طریقوں کی مدد سے فی ایکڑ کاشت میں اضافہ ہوگا، ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (AARI) نے حال ہی میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے BT کپاس کی ایک نئی قسم MH-486 متعارف کرائی ہے۔ 

ڈاکٹر عابد محمود نے کہا "جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے پیداوار میں اضافہ ہو سکتا ہے اور کسان شاندار منافع کما سکتے ہیں"چین جدید تکنیک کو بروئے کار لا کر  39 من فی ایکڑ گندم حاصل کر رہا ہے جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ اوسط پیداوار ہے جبکہ پاکستان کی فی ایکڑ پیداوار 26 من ہے ، ان کا کہنا تھا  کہ حکومتی تعاون سے وہ ترقی یافتہ ممالک سے زیادہ پیداوار حاصل کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا  پاکستان میں اچھی زرعی زمین ہے لیکن کسانوں کے پاس جدید ٹیکنالوجی کی  کمی ہے ،پاکستانی حکومت نے چین کے تعاون سے بھی پیش رفت کی ہے ، پاکستانی اور چینی محققین پاکستان میں فصلوں کی اوسط پیداوار اور پیداوار بڑھانے کے لیے گندم کی ہائبرڈ اقسام کی مسلسل جانچ کر رہے ہیں تاکہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات پر قابو پایا جاسکے  ۔

پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (PARC) کے چیئرمین ڈاکٹر غلام محمد علی نے کہا "ہماری حکومت چین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ تعاون اور ہم آہنگی کی منتظر ہے، سیلاب، گندم کے نقصانات سے تقریباً 4 بلین ڈالر کا نقصان ہوا، سندھ اور بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے ہیں۔"

حکومت پہلے ہی مقامی استعمال کے لیے تقریباً 10 لاکھ ٹن گندم درآمد کر چکی ہے، اور مزید درآمد کی جائے گی۔  امید ہے  اگلے سال مارچ میں  ہم خود  گندم کی کٹائی کریں گے لیکن زمین پر سیلابی پانی کی وجہ سے  آنے والے سیزن میں تقریباً 20 فیصد گندم کی پیداوار کم ہو جائے گی ۔

 ڈاکٹر غلام محمد علی کا کہنا تھا موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے اور پودے لگانے کے لیے مشینری  درکار ہے ،   اور سیلاب جیسی  تباہ کن آفات سے بچانے کے لیے اسٹوریج سسٹم کی ضرورت ہے۔

گارڈ ایگریکلچر ریسرچ اینڈ سروسز کے چیف ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ آفیسر عبدالرشید نے کہا کہ چاول عام طور پر 30 سے 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان پک جاتے ہیں لیکن ہائبرڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ یہ 40 سے 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک بھی برداشت کر سکتے ہیں ، یہ کم پانی استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے مجموعی لاگت کم ہوتی ہے اور اس سے کسان اور ضریدار دونوں کو فائدہ ہوتا ہے ، اس کے علاوہ یہ دوسروں کی نسبت  95 سے 100 دنوں میں پک جاتا ہے جبکہ عام چاول تقریباً 120 دن میں تیار ہوتا ہے ۔