نابینا بھائیوں کی 13 سال بعد بینائی لوٹ آئی

نابینا بھائیوں کی 13 سال بعد بینائی لوٹ آئی

ریاض: سعودی عرب میں دوسگے بھائیوں کی تیرہ سال بعد بینائی لوٹ آئی ۔ دونوں بچے موروثی امراض چشم کی وجہ سے دنیا کی رنگینیوں سے محروم تھے لیکن جدید سائنس نے ان کی زندگی میں رونقیں بحال کردیں ۔

تفصیلات کے مطابق سعودی عرب میں 16 سالہ اسامہ اور 14 سالہ عبدالکریم الزایدی اپنی آنکھوں کے نور کی واپسی سے بہت خوش ہیں ۔ بچوں کے والد کاکہنا ہے کہ ان کے بچے  ایک موروثی مرض کے باعث بینائی سے محروم ہوگئے تھے۔ انہیں یہ عارضہ جین میں تغیر کی وجہ سے موروثی ریٹینوپیتھی RPE65 کے باعث پیش آیا تھا تاہم علاج میں مسلسل 13 سال لگ گئے۔

ان کا کہناتھا کہ یہ ایک مہنگا علاج ہے۔ ابھی ان دنوں بچوں کی ایک ایک آنکھ کی بینائی واپس آئی ہے۔ دونوں بچوں کی ریاض کے شاہ خالد آئی اسپیشلسٹ اسپتال میں ایک میڈیکل ٹیم نے سرجری کی۔ اس میں جین تھراپی اور انجکشن کا استعمال کرتے ہوئے لکسٹورنا[Luxturna] دوا کا استعمال کیا گیا۔ یہ دُنیا کے جدید ترین علاج کے طریقوں میں سے ایک ہے اور آپریشن کے نتیجے میں ایک نایاب بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد ان کی بینائی اسی طریقہ علاج سے واپس آئی ہے۔

 بچوں  کے والد الزایدی نے  بتایا کہ اسامہ اور عبدالکریم کی آنکھوں کا  آپریشن کامیابی کے ساتھ مکمل کیا گیا۔ اس مرحلے کو مکمل کرنے پرپورا خاندان بہت زیادہ خوش ہے۔ اب تک ان بچوں کی ایک ایک آنکھ کا آپریشن کامیاب ہوچکا ہے اور دوسری آنکھوں کے آپریشن کا انتظار ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میرے بیٹے رات کے وقت خاص طور پر اندھیری گلیوں میں بینائی کی کمزوری کے باعث مشکلات کا سامنا کرتےتھے۔ اب علاج نے بینائی کے میدان کو وسیع کردیا ہے۔ ہم انتظار کررہے ہیں کہ اگلے آپریشن میں ان کے دیکھنے کی صلاحیت مزید بہتر ہوجائے گی ۔یاد رہے کہ دونوں بچے رات کے اندھے پن میں مبتلا تھے جو کہ کم روشنی میں بینائی کی شدید خرابی کا نتیجہ ہے۔

وزیر صحت ڈاکٹر توفیق الربیعہ کا  کہنا تھا کہ یہ ہے دو نوجوانوں کے لیے بینائی بحال کرنے کے لیے ایک متاثر کن کامیابی کی کہانی ، اور یہ قومی کامیابیوں میں سے ایک ہے جو ہمیں اپنی قیادت اور اپنے کارکنوں پر فخر کا احساس دلاتی ہے۔

شاہ خالد آئی اسپیشلسٹ اسپتال کے سی ای او ڈاکٹر عبدالعزیز الراجحی نے وضاحت کی کہ جین تھراپی اور لکسٹرنا کا انجکشن ریٹینائٹس پگمنٹوسا کے علاج میں اپنی نوعیت کا پہلا علاج ہے۔ یہ کیس سعودی عرب ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں پہلا علاج ہے۔ ایشیا ، امریکا اور یورپ اس دوا کو استعمال کیا جاتا ہے۔ مملکت میں پہلے مریض کا 2019 میں علاج کیا گیا۔

ڈاکٹر الراجحی نے بتایا کہ اس دوا کی دریافت جین تھراپی میں ایک عالمی جست ہے اور یہ ان مریضوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو جینیاتی خرابی اور جین میں تبدیلی (RPE65) سے متاثر ہوتے ہیں۔اسپتال میں سرجیکل ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر سلیمان السلیمان جوریٹنا سرجری اور یووائٹس کے ایک کنسلٹنٹ ہیں نے کہا کہ اس قسم کا علاج جین کی قدرتی نقل (RPE65) کو براہ راست ریٹنا تک پہنچانے کا کام کرتا ہے۔ خلیات قدرتی پروٹین پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں جو روشنی کو ریٹنا میں برقی سگنل میں تبدیل کرتا ہے۔ آنکھ مریض کو بہتر انداز میں دیکھانے میں مدد دیتی ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے۔ یہ ایک جینیاتی تغیر کی وجہ سے ہوتی ہے جو کہ سالوں میں آہستہ آہستہ بینائی کوخراب کرتی ہے۔ یہاں تک کہ مریض مکمل طور پر اندھا ہوجاتا ہے۔2017 کے دوران ایک مطالعہ شائع ہوا کہ لکسٹرنا اس بیماری کا محفوظ علاج ہے۔ 2019 میں یہ دوائی علاج کے لیے سعودی عرب میں فراہم کی گئی تھی۔ اس دوائی کی ایک آنکھ میں استعمال کی لاگت ایک ملین ریال بنتا ہے ۔