کیا واقعی موسمیاتی تبدیلیوں کی ذمہ دار عالمی قوتیں ہیں؟

کیا واقعی موسمیاتی تبدیلیوں کی ذمہ دار عالمی قوتیں ہیں؟

آج ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ امیر ممالک کے نتائج غریب ممالک بھگت رہے ہیں، امیر ممالک کوئلہ، گیس اور تیل جلا کر توانائی حاصل کرتے ہیں اور اپنی انڈسٹری چلا رہے ہیں جبکہ غریب ممالک جن کی انڈسٹری اتنی زیادہ مضبوط نہیں ہے وہ اس سے متاثر ہو رہے ہیں، جیسے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہاموسمیاتی تبدیلیوں کے لیے ترقی پذیر ممالک سب سے کم ذمہ دار ہیں، ایسا ہی معاملہ پاکستان کا ہے، آب و ہوا کی تبدیلی سے اس وقت ہرملک متاثر ہے، پھر ہمارے وزیر اعظم شہباز شریف بھی ہر فورم پر یہی کہہ رہے ہیں کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟ کہ امیر ممالک کے کیے کی سزا ہم بھگتیں؟ خیر اس میں حقیقت بھی ہے مگر قصور غریب ممالک کابھی ہے جو پیشگی اقدامات سے قاصر رہتے ہیں، جیسے اگر آپ کو علم ہے کہ بارشیں اس سال زیادہ ہوں گی یا یہ کہا جا رہا ہے کہ اگلے چند سال بارشیں بھی زیادہ ہوں گی اور پاکستان میں موجود گلیشئر بھی پہلے کی نسبت زیادہ پگھلیں گے۔ تو ہمیں اس حوالے سے پانی کوسٹور کرنے کے لیے ڈیمز کی تعداد میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے؟ پانی کی گزرگاہوں کے راستے صاف نہیں کرنے چاہیے؟ یہ کوئی چند دہائیوں پر محیط بات یا نصف صدی کا قصہ نہیں بلکہ دنیا میں گلوبل وارمنگ کا آغاز انیسویں صدی میں قطبِ شمالی کے براعظموں میں 1830 سے 1850 کے دوران ہی ہوگیا تھا اور جیسے ہی ماہرین کو اس کا احساس ہوا، فوری طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایات جاری کی جانے لگیں۔اس وقت بھی اخبارات میں اس قسم کے اشتہارات چلتے تھے کہ ”تمہارے ساحلی شہر ڈوب جائیں گے، تم سڑکوں پر بے یارومددگار گھومتے پھرو گے اور کوئی امداد نہیں دے گا۔ تم گلوبل وارمنگ کے نتیجے میں شدید گرمی، شدید سردی، سمندری و دریائی طوفانوں اور سیلابوں کا سامنا کرو گے“ وغیرہ۔ مسئلہ یہ نہیں تھا کہ عالمی برادری کو گلوبل وارمنگ نظر نہیں آرہی تھی، بلکہ اس گلوبل وارمنگ سے اپنی جگہ دیگر، خاص طور پر ترقی پذیر ممالک کا نقصان ہوتا نظر آتا تھا، جن کو عام طور پر تھرڈ ورلڈ کنٹریز کہا جاتا ہے یعنی تیسری دنیا کے لوگ۔
اور پھر پاکستان میں سیلاب کوئی پہلی بار تو نہیں آیا بلکہ 2010 کا سیلاب وہ حتمی وارننگ تھی جسے پاکستان کے حکمرانوں نے جانتے بوجھتے نظر انداز کیا، کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ جب سیلاب آئے گا، اس وقت بھی ہم یا ہمارے بچے حکمران ہوں گے۔جب 2010 میں سیلاب آیا تو حکمرانوں نے اس کا رخ غریبوں کی بستیوں کی طرف موڑا اور اپنے محل بچا لیے جبکہ کچھ ایسی ہی حکمتِ عملی موجودہ سیلاب کے دوران بھی مبینہ طور پر اپنائی گئی۔خیر موسم کی یہ شدت جہاں پانی کی طلب بڑھاتی ہے وہاں خود بخود دستیاب قدرتی پانی بھی کم ہو جاتا ہے۔ انٹر نیشنل واٹر مینجمنٹ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق 1980 ء کی دہائی تک پاکستان میں پانی مناسب مقدار میں موجود تھا۔ 2000 ء تک پاکستان میں پانی کی کمی کے اثرات نمودار ہونا شروع ہو گئے تھے اور اگر موجودہ حالات برقرار رہے تو 2035ء تک پاکستان پانی کی شدید کمی کے شکار ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی کے مطابق انکا تخمینہ تھا کہ رواں برس پاکستان میں پانی کی کمی 22 فیصد ہو گی لیکن یہ بڑھ کر38فیصد تک ہو گئی ہے۔ جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق رواں برس پاکستان میں پانی کی کمی 52فیصد تک ہے۔ موسمیاتی تغیرات اور پانی کی شدید کمی کا مطلب ہے کہ خوراک کی پیداوار میں شدید کمی اور قحط کا خطرہ۔ دنیا بھر کے قابل اعتماد ادارے کئی برس سے ہماری توجہ اس جانب دلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن نہ تو پہلے کسی کے کان پر جوں رینگی اور نہ اس برس ابھی تک موسم کی شدت اور پانی کی شدید کمی کے باوجود ہمارے اداروں اور سیاستدانوں نے اس جانب سنجیدہ توجہ کی ہے۔ کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے، پچھلی حکومتوں کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانے یا اس سب کو بھارتی سازش قرار دینے سے نہ تو گزشتہ پچاس برس سے اس مسئلے کے حل میں کوئی مدد ملی ہے نہ آنے والے سو برس میں ملے گی۔ اور کڑوی سچائی یہ ہے کہ اگر ہماری روش یہی رہی، تو ہمارے آنے والے وقت میں پچاس برس ہوں گے ہی نہیں (خدانخواستہ)۔
بہرکیف صنعتی انقلاب کے نتیجے میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ذمہ دار ممالک وہ ہیں جو سب سے زیادہ کاربن کے اخراج کے بھی ذمہ دار ہیں جن میں امریکا، چین، بھارت، روس، جاپان اور برازیل جیسے ممالک سرِ فہرست آتے ہیں۔دوسری جانب عالمی گلوبل وارمنگ سمیت موسمیاتی تبدیلیوں کے دیگر شدید اثرات کے نتائج بھگتنے والے ممالک میں چاڈ، ہیٹی، کینیا، پاکستان اور صومالیہ جیسے ممالک شامل ہیں اور خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کو سمجھنا ہوگا کہ عالمی برادری گلوبل وارمنگ کے نقصانات کو صدیوں پہلے سمجھ گئی تھی۔عالمی برادری کو احساس تھا کہ گلوبل وارمنگ بڑھنے سے انہیں کیا کیا خطرات درپیش ہوں گے، تاہم اس کاربن کے اخراج کی ذمہ داری قبول کرنے کیلئے قیمت پرکشش تھی۔ عالمی برادری اربوں ڈالر کی آمدنی کو چھوڑ کر ترقی پذیر ممالک کی مدد کیوں کرتی؟اپنی حالیہ رپورٹ میں ایشیائی ترقیاتی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان قدرتی آفات کے اعتبار سے ہائی رسک ممالک میں شامل ہے۔ سیلاب سے ہونے والی تباہی زلزلے سے زیادہ ہوئی۔ ہر سال پاکستان قدرتی آفات کے نتیجے میں 2 ارب ڈالر کا نقصان بھگتنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
ہرسال قدرتی آفات کے نتیجے میں اوسطاً 863 افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ غربت میں اضافہ ہوتا ہے، سیلاب سے فصلیں، گھر بار اور سازوسامان سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے۔ سیلاب پاکستان کے پسماندہ اضلاع کو مزید پسماندگی کی طرف دھکیل رہا ہے۔دلچسپ طور پر پاکستان جو مسئلہ عالمی برادری کے سامنے رکھتا ہے، وہ شاذ و نادر ہی حل ہوتا ہے۔ سب سے بڑی مثال مسئلہ کشمیر ہے۔ پھر بھارت کی جانب سے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کا مسئلہ جو آزادی کے 75سال بعد بھی حل نہ ہوسکا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان اپنی معاشی پالیسیوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے غربت، بھوک اور افلاس جیسے مسائل کا تدارک کرے، قرض کے بجائے افرادی قوت پر بھروسہ اور عوامی مسائل، خاص طور پر انصاف کی فراہمی کو ترجیح دے، شاید یہی پاکستانی قوم کے طویل عرصے سے جاری مسائل کا حل بن سکے۔

مصنف کے بارے میں