پاکستان اور ایران کی جنوبی ساحلی پٹی ایک بڑے سونامی کی زد میں ہے، ماہرین کا انتباہ

پاکستان اور ایران کی جنوبی ساحلی پٹی ایک بڑے سونامی کی زد میں ہے، ماہرین کا انتباہ

لندن:  ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان اور ایران کی جنوبی ساحلی پٹی ایک بڑے سونامی کی زد میں ہیں،مکران کے مغربی حصے میں اگر زلزلے آئیں اور پورے مکران میں میگاتھرسٹ ایک ساتھ حرکت کرے تو اس خطے میں سماترا اور ٹوکیو کی طرح نو درجے کا ایک خوفناک زلزلہ آ سکتا ہے، اس خطے میں زیرِ زمین ٹیکٹونک پلیٹ یا پرت ایک دوسری پرت کے نیچے سرک رہی ہے جس کے نتیجے میں ایک بہت بڑی فالٹ لائن وجود میں آ رہی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک نئی تحقیق کے مطابق پاکستان اور ایران کی جنوبی ساحلی پٹی ایک بڑے سونامی کی زد میں ہے۔اس خطے میں عمانی اور پاکستانی ساحلی پٹیوں پر تیزی سے ترقیاتی منصوبوں پر کام ہو رہا ہے۔ آبادی بڑھ رہی ہے اور ساحل پر آباد بستیاں شہروں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ اس وجہ سے اور زیادہ لوگ سونامی کے خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔ گوادر پورٹ اور اس سے ملحقہ علاقے جہاں تیزی سے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں 1945 میں زلزلے سے بری طرح متاثر ہو چکے ہیں۔

جیوفیزیکل جرنل انٹرنیشنل کی اس تحقیق میں ماہرین نے اس خطے میں سیسمولوجی، جیوڈیسی اور جیومارفولوجی جیسی تکنیک استعمال کی ہیں۔مکران کا مشرقی حصہ پاکستان میں ہے جہاں 1945 میں 8.1 درجے کے زلزلے اور پھر سونامی کے نتیجے میں 300 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس سونامی سے موجودہ پاکستان اور عمان متاثر ہوئے تھے۔ یہ خطہ زلزلوں کی زد میں ہے اور اس برس فروری میں بھی یہاں چھ درجے کا زلزلہ آ چکا ہے۔مکران کا مغربی حصہ جو ایران میں ہے اگر وہاں بھی زلزلے آئیں اور پورے مکران میں میگاتھرسٹ ایک ساتھ حرکت کرے تو اس خطے میں سماترا اور ٹوکیو کی طرح نو درجے کا ایک خوفناک زلزلہ آ سکتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ایران اور پاکستان کا جنوبی ساحلی علاقہ مکران ایک سبڈکشن زون ہے۔ اس خطے میں زیرِ زمین ٹیکٹونک پلیٹ یا پرت ایک دوسری پرت کے نیچے سرک رہی ہے جس کے نتیجے میں ایک بہت بڑی فالٹ لائن وجود میں آ رہی ہے۔ اسی فالٹ لائن کو میگا تھرسٹ کہا جاتا ہے۔یہ پرتیں ایک دوسرے کے ساتھ مخالف سمت میں سرکتی ہوئی آگے بڑھ رہی ہیں۔ اِس دوران یہ ایک دوسرے میں پھنس سکتی ہیں جس کے نتیجے میں دباو  پیدا ہوتا ہے۔ یہ دباو  اتنا زیادہ ہو سکتا ہے کہ اِس کے نتیجے میں زلزلہ آ جائے۔

مصنف کے بارے میں