ماں محبت ، شفقت ، عبادت ، ریاضت

ماں محبت ، شفقت ، عبادت ، ریاضت

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں خدا کی محبت کا دوسرا روپ ماں ہے ۔انسان جب اس دنیا میں آتا ہے تو ایک ماں ہی ہوتی ہے جو اسے  سب سے زیادہ  اپنایت دیتی ہے ۔ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے ۔جس کے قدموں تلے اللہ نے جنت رکھی  ہے ۔ ہزاروں دکھوں کو سمونے کا ہنر ماں کے علاوہ کوئی اور نہیں رکھ سکتا ۔ماں کی محبت وہ واحد اور سچی محبت ہے جس میں کوئی ریاکاری ،دکھاوا،بناوٹ نہیں ہوتی ۔ گویا  ماں کے بارے میں بیان کرنا سمندر کو دریا میں گرانے کے مانند ہے۔

 ماں محبت ، شفقت ، عبادت ، ریاضت
وہ لفظ ہی نہیں اُترا ، جس سے تجھے لکھوں

ماں ایثار اور قربانی کا   شاہکار مجسمہ ہے ۔ماں کو اک نظر پیارسے دیکھ لینےکا ثواب ایک حج کے برابر ہوتا ہے ۔تو کچھ بدقسمت  بچے اس  میٹھے پھل سے ناآشنا ہوتے  ہیں۔

اولاد چاہے کتنی بھی نافرمان کیوں نہ ہو لیکن ماں ہی وہ میٹھا اور ٹھنڈا سایہ ہےجوبچوں کو اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے اور اولاد کے کردار پر خراش تک نہیں آنے دیتی۔ اولاد تو  اپنی ماں کی ایک رات کا بدلہ نہیں ادا کر سکتی  مگر ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔اولاد کو ماں کا احساس اس  کے چلے جانے کے بعد ہی کیوں ہوتا ہے۔

کیا ماں اپنے مرنے کے بعد اپنے جذبات اور محبت  دکھاتی ہے کیا اس کو بھی اولاد کا احساس مرنے کے بعد ہوتا ہے  ۔۔؟؟

 بوعلی سینا نے کہا اپنی زندگی میں محبت کی سب سے اعلیٰ مثال میں نے تب دیکھی جب سیب چار تھے اور ہم پانچ تب میری ماں نے کہا مجھے سیب پسند ہی نہیں ہیں۔جب بچہ ماں کے پاس ہوتا ہے تو ہر غم اس سے دور ہوتا ہے ماں خود بھوکا رہ لے گی مگر اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گی،سرد راتوں میں جب اسکا بچہ بستر گیلا کر دیتا ہے وہ ساری رات خود تو گیلی جگہ پر لیٹ جائے گی لیکن اپنے بچے کو خشک جگہ پر سلائے گی۔

بقول عباس تابش

اک مدت سے میری ماں سوئی نہیں

میں نے اک بار کہا تھا ماں مجھے ڈر لگتا ہے

بچہ اگر گھر دیر سے پہنچے تو اسکی حالت  اس پیاسے کی طرح ہوجاتی  ہے جسے پانی کی اشد ضرورت ہو پھر ایک دن ایسا بھی آتا ہے جب اس کا بچہ دنیا کی رنگینیوں میں الجھ جاتا ہے تو اسے ماں کی روک ٹوک چبھنے لگتی ہے اور وہ ماں کی نصیحتوں سے بیزار آجاتا ہے۔وہی اولاد جس نے سارا کچھ ماں باپ سے سیکھا ہو پھر تھوڑی عقل آنے پر کہتی ہے جو ہم جانتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے ان کو تو کسی بات کا نہیں پتہ یہ تو جاہل ہیں ۔لیکن معذرت کے ساتھ جاہل وہ نہیں ہوتے بلکہ ہم یعنی  بچے ہوتے ہیں  وہ بھی دن تھے جب ہمیں بولنا نہیں آتا تھا تو ماں ہی ہوتی تھی جو سب کچھ سمجھ جاتی تھی لیکن  آج ہم ہر بات پر کہتے ہیں چھوڑو ماں تمہیں کس چیز کا پتہ ہے ۔

بات یہاں تک ہی محدود نہیں  کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اپنی زندگی  میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ ان کو اپنے ماں باپ کا پیار یاد ہی نہیں رہتا  جیسے جیسے ماں باپ اپنی عمر کی  دہلیز کو پار کرتےہیں  تو اولاد کو ان کی عادتیں بری لگنے لگتی ہیں جب بچوں پر یہ وقت آتا ہے کہ ان کی اچھی سیوا کی جائے تو  وہ ان کو اولڈ ایج ہاوسز میں چھوڑ آنے کو ترجیح دیتے ہیں

شائد ان کو اپنے بچپن کا وقت بھول جاتا ہے یا جان بوجھ کر  اتنے بے حس ہوجاتے ہیں۔

 حالانکہ ماں باپ کو اولڈ ایج ہاؤسز میں چھوڑ آنا کہاں کی بہادری ہے کہاں کی دانشمندی ہے ۔۔؟؟ یہ اپنے پاں باپ کو کس چیز کا بدلہ دیتے ہیں  کیا  انہوں نے اسے جنا ،اچھی تربیت  کی پڑھایا لکھایا  اچھا انسان بنانے کی کوشش کی لیکن جیسے ہی یہ خو دسے تھوڑا آشنا ہوا تو اس نے انہیں تنہا چھوڑ دیا  جب ان کو کسی کے سہارے کی ضرورت پڑی تو اولاد نے ان کو بے سہارا کر کے چھوڑ دیا ۔

خوش قسمت ہیں وہ لوگ جن کی ماؤں کا سایہ ان کے سروں پر موجود ہے  اور وہ اپنی ماں کی دعاؤں سے مستفید ہوتے ہیں کیونکہ ماں تو وہ پیر ہےجس کی دعا ساتوں آسمانوںکا سینہ چیرتے ہوئے اللہ کی بارگاہ تک پہنچتی ہے  14 مئی ماں کے عالمی دن کے حوالے سے مشہور ہے لیکن اس کا قطعاََ مطلب نہیں کہ  صرف اسی دن  ان سے پیار جتایا جائے  بلکہ ہر  ہر دن کا اک  اک لمحہ ان کی خدمت میں گزارا جائے  ۔

  آخر میں ماں کے نام خراج عقیدت

ماں تو ہے تو یہ بہاریں ہیں

تیرے ہی دم سے یہ دلکش نظارے ہیں

ماں میرے دل کا قرار تجھ سے ہے

میری ہر  کامیابی کا راز تجھ سے ہے

ماں میرا اک اک لمحہ تیرا سوالی ہے

تیرے بغیر تو میری جھولی بالکل  خالی ہے

تیرے بعد  یہ رشتے کیسے رشتے ہیں

جہاں کےسارے سانپ مجھے ڈستے ہیں

ماں جب نظر تو نہیں آتی ہے

میرے گھر کی  ہی ویرانی مجھے کھاتی ہے

تیری  آغوش   نے  ہی مجھے سمیٹ رکھا ہے

تیری دعاؤں نے ہی مجھے بچا رکھا ہے

بس تیرے پیار کا  ٹھنڈا سایہ چائیے

ماں بس مجھے بس تیرا ہی سہارا چائیے

میری ماں میں تجھ سے کچھ نہیں مانگتا

بس اک عہد کر

مجھ سے بچھڑنا  مت مجھ سے روٹھنا مت !!

 

 

ساحرعلی نیو ٹی وی میں ایسوسی ایٹ پروڈیوسر ہیں  

انکا فیس بک آئی ڈی Sahir Rafiq