ان حالات میں انتخابات ممکن نہیں، شاہ محمود اور فواد چودھری کو رہا کرکے مذاکرات شروع کریں: چیف جسٹس 

ان حالات میں انتخابات ممکن نہیں، شاہ محمود اور فواد چودھری کو رہا کرکے مذاکرات شروع کریں: چیف جسٹس 
سورس: file

اسلام آباد : پنجاب اور کے پی انتخابات سے متعلق کیس  میں الیکشن کمیشن کی نظر ثانی کی درخواست  پر سماعت آئندہ منگل تک ملتوی  کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہے کہ اپوزیشن اور حکومت دونوں تنازع کو بڑھا رہےہیں۔ مذاکرات دوبارہ شروع کریں اور شاہ محمود قریشی اور فواد چودھری کو رہا کریں۔ ان حالات میں انتخابات ممکن نہیں۔ 

 الیکشن کمیشن کی درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی بینچ کا حصہ تھے۔  چیف جسٹس نے ریمارکس دیے  کہ  الیکشن کمیشن نے جو معاملات اٹھائے ہیں ان معاملات پر وفاقی حکومت کو آنا چاہیے تھا مگر وہ نہیں آئے۔ اس وقت صورتحال بہت تناؤکا شکار ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اورحکومت دونوں تنازع بڑھا رہے ہیں  جس طرح سیاسی طاقت استعمال ہورہی ہے وہ پریشان کن ہے۔  وفاقی حکومت بے بس نظر آتی ہے۔لوگوں کی جانیں جارہی ہیں،اداروں کی تذلیل ہورہی ہے۔ 

 چیف جسٹس نے کہا کہ ملکی اداروں اوراثاثوں کو جلایا جارہاہےچار،پانچ دن سے جو ہورہا ہےاسے بھی دیکھیں گے۔ لوگوں کی جانیں جا رہی ہیں اداروں کی تذلیل ہو رہی ہے۔ 

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس وقت گینداٹارنی جنرل آپ کی کورٹ میں ہے۔ پولرائز معاشرے میں انتخابات کیسے ہوں گے ۔ آئین پر عملدرآمد میرا فرض ہے جو ادا کرتا رہوں گا ۔ الیکشن جمہوریت کی بنیاد ہیں ۔ 

 چیف جسٹس دونوں طرف میچور سیاسی جماعتیں ہیں ۔ عدالت کو اپنے کنڈکٹ پر مطمئن کریں ۔ آئین میں 90 دن ہیں تو 90 ہیں۔ حکومت نے الیکشن کمیشن کی طرح کی باتیں کیں لیکن عدالت سے رجوع نہیں کیا۔ میرا دونوں فریقین کو پیغام ہے کہ اخلاقیات کے اعلیٰ درجے پر قائم ہوں۔ 

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ پہلے الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لیے فنڈز اور سکیورٹی سے متعلقہ مسائل سے آگاہ کیا تھا مگر آج تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر سوال اٹھا دیا ہے۔

یاد رہے کہ نظر ثانی درخواست میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے پنجاب میں پولنگ کی تاریخ 14 مئی واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت عظمیٰ کے پاس انتخابات کی تارہخ دینے کا اختیار نہیں اور یہ کہ الیکشن کے لیے 14 مئی کی تاریخ دے کر عدالت نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ انھیں اپنی درخواست پر دلائل دینے کے لیے کتنا وقت چاہیے ہو گا، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے تین سے چار گھنٹوں کا وقت طلب کیا۔

اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں ’ہم تمام فریقین کو سُنیں گے۔‘ سپریم کورٹ نے اب اس معاملے پر تمام فریقین بشمول وفاق، پنجاب، خیبرپختونخوا اور سیاسی جماعتوں کو نوٹسز جاری کر دیے ہیں۔

دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے نظرثانی درخواست پر اعتراض عائد کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی کا دائرہ اختیار محدود ہوتا ہے اور یہ کہ نظرثانی کیس میں وہ دلائل نہیں دیے جا سکتے جو مرکزی کیس میں نہ دیے گئے ہوں۔

انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک کی آدھی آبادی (پنجاب اور خیبرپختونخوا) نمائندگی کے بغیر ہیں اور اس وقت بہتر یہ ہو گا کہ عدالت اس وقت اپنے احکامات (پنجاب میں الیکشن) پر عمل کے لیے حکم جاری کرے۔

تاہم اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو نظرثانی درخواست پر دلائل کی تیاری کے لیے وقت ملنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کا مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو مرکزی پٹیشن میں چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔
 

یف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جس انداز میں سیاسی قوتیں کام کر رہی ہیں یہ درست نہیں کیونکہ لوگ جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں، ادارے خطرات اور دھمکیوں کی زد میں ہیں اور سیاسی قوتوں کو چاہیے کہ وہ مذاکرات کے عمل کو دوبارہ دیکھیں۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملکی ادارے سیریس تھریٹس (سنگین خطرے کی) کی زد میں ہیں اور اُن کا مشورہ یہ ہو گا کہ سیاسی جماعتیں پرامن ماحول کےلیے کردار ادا کریں۔

چیف جسٹس نے سپریم کورٹ کے باہر پی ڈی ایم جماعتوں کے احتجاج کے تناظر میں استفسار کیا کہ ’‏آج دیکھ لیں، حکومت بے بس ہے، لوگ گیٹ پھلانگ رہے ہیں، آئین ہی جمہوریت کی بنیاد ہے اور ہم سب ایک فرض کی امید کرتے ہیں کہ جو ہر ایک نے نبھانا ہے۔ باہر جو کچھ ہو رہا ہے، کون آئیں پر عمل کروائے گا؟‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’رواں برس فروری میں جب انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوئی تھی تو اس وقت ایک پہلو تھا جس کی خلاف ورزی ہو رہی تھی، لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ اٹارنی جنرل بتائیں کہ مذاکرات کیوں شروع نہ ہو سکے۔ لوگوں کی زندگیوں کا تحفظ ضروری ہے، میں نے لوگوں کو گولیاں لگنے کی فوٹیج بھی دیکھی ہے۔‘

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پر عملدرآمد لازمی ہے اور ایگزیکٹیو اور اپوزیشن اخلاقیات کا اعلی معیار برقرار رکھیں مگر سوال یہ ہے کہ ’اس ماحول میں آئین پر عملدرآمد کیسے کرایا جائے؟ چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں سیاست کے بارے میں نہیں معلوم اور نہ جاننا چاہتے ہیں، ہم یہاں عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں، ان کے حقوق کا تحفظ ہو گا تو لوگ خوش ہوں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں نے کل دیکھا کہ موٹر وے خالی پڑے ہیں، معیشت کی حالت خراب ہو رہی ہے جبکہ ملک میں کاروبار کا پہیہ رک گیا ہے۔ 90 دن میں انتخابات بنیادی معاملہ ہے، تین چار دن دیکھیں گے کیا ہو رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ عدالت اپنا فرض ادا کرتی رہے گی۔ ’اداروں کا احترام کرنا ہو گا، اگر تفریق زدہ معاشرہ ہو گا تو انتخابات کے نتائج کون قبول کرے گا؟ جو بیانیہ دونوں جانب سے بنایا جا رہا ہے اس کو حل کریں۔‘

مصنف کے بارے میں