معیشت،سیاست اور ریاست: اللہ خیرکرے

معیشت،سیاست اور ریاست: اللہ خیرکرے

ہم عوام بری طرح معاشی مسائل کا شکار ہوچکے ہیں قومی معیشت بدحالی کا شکار ہے خزانہ خالی ہے درآمدات، ضروری درآمدات کی ادائیگیوں کے لیے زرمبادلہ موجود نہیں برآمدی آمدنی گھٹ چکی ہے ہم کیونکہ درآمدی اخراجات کی ادائیگی کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں اس لیے برآمدی اشیاء کی تیاری کے لیے درکار خام مال دستیاب ہی نہیں ہے تو برآمدات کا حجم بھی گھٹ چکا ہے آمدنی کم ہوگئی ہے عالمی معیشت بھی کیونکہ مسائل کا شکار ہے اور اندرون ملک سیاسی کشمکش بھی عروج پر ہے اس لیے بیرون ممالک سے حاصل ہونے والی زرمبادلہ کی مقدار بھی کم ہوچکی ہے توازن تجارت بھی بگڑا ہوا ہے اور ادائیگیوں کا توازن بھی پریشان کن صورت حال کا شکارنظر آرہاہے دوسری طرف انفرادی معاشیات جو پہلے ہی اُجڑی اُجڑی تھی حالیہ منی بجٹ کے پیش کئے جانے کے بعد بالکل ہی تباہ و بربادہونے لگی ہے مہنگائی ہے کہ آسمانوں کو چھوچکی ہے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار نے عام آدمی کا جینا دوبھر کردیا ہے ذرائع آمدنی سکڑ چکے ہیں بے روزگاری عام ہے قدر زر میں مسلسل گراوٹ نے معاملات کو اور بھی بگاڑ دیا ہے الیکٹرانک وپرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا بلند سروں میں عوامی مسائل کھل کر بیان کررہا ہے کوئی ایسا مسئلہ رہ نہیں گیا جو بیان نہ ہوا ہو ایسے میں ان پر مزید بات کرنا تکرار اور تضیع اوقات کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
سیاست دگرگوں ہے۔ سیاستدان دست و گریبان ہیں عمران خان پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت کے خلاف ڈٹ کر زمان پارک میں چھپے بیٹھے ہیں خطاب در خطاب کے ذریعے حکومت کے خلاف شعلے ہی نہیں بھانبڑ اگل رہے ہیں اپنے ریموٹ ٹیلی وژن خطاب کے ذریعے وہ ماحول کوخوب بھڑکاتے اور دہکاتے رہتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے وہ امریکی ڈونلڈلو کے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ امریکہ نے سازش کرکے ان کی حکومت گرائی اور پھر پی ڈی ایم کی حکومت کو امپورٹڈ کہہ کر اس کی بے توقیری کرتے رہتے تھے جنرل باجوہ کو نیوٹرل ہونے پر دشنام کی نوک پر دھرے ہوئے تھے لیکن آج کل امریکہ کو کسی قسم کی سازش سے قطعاً بری کرکے جنرل باجوہ پر فوکس کئے ہوئے ہیں حال ہی میں صدر عارف علوی کو خط لکھ کر جنرل باجوہ کے خلاف ان اعمال کی انکوائری کرانے کا بھی کہہ چکے ہیں جو انہوں نے بقول عمران خان اپنے دور ملازمت کے دوران خلاف آئین سرانجام دیئے تھے عمران خان اداروں اور افراد کو نشانے پر لیے ہوئے ہیں ہروقت، ہرلمحہ کوئی نہ کوئی ادارہ یا اہم سیاستدان،جج، جرنیل ان کی مشق ستم کا نشانہ بنا ہوتا ہے 10اپریل 2022میں حکومت سے رخصتی کے بعد وہ ہمہ وقت بیانیے تشکیل دینے اور پھر ان سے یو اور وی ٹرن لینے میں مصروف ہیں۔ آج کل وہ اپنے بلند بانگ دعوؤں کے برعکس عمل پیرا نظر آرہے ہیں۔ ریاست مدینہ کی تبلیغ کے دوران وہ قانون کی حکمرانی اور اس کے سب پر لاگو ہونے کے بارے میں بلند بانگ دعوے کیا کرتے تھے لیکن جب اس اصول پر عمل درآمد کرنے کا وقت آیا تو عمران خان 
نے انتہائی پست درجے کے رویوں کا مظاہرہ کیا زمان پارک میں چھپ کر بیٹھے ہوئے ہیں رانا ثنا اللہ کے ہاتھوں گرفتاری کا بھوت ان کے جسم وجان پر غالب آچکا ہے لاہور ہائیکورٹ کے ڈبل بینچ نے ان کی حفاظتی ضمانت دینے کی درخواست مسترد کردی ہے سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق اگر ملزم عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوتا تو حفاظتی ضمانت کی درخواست منظور نہیں کی جائے گی۔ ہائیکورٹ کے ڈبل بینچ بشمول جسٹس باقر علی نجفی اور جسٹس شہباز رضوی نے حلف نامے اور وکالت نامے پر کئے گئے عمران خان کے دستخطوں میں فرق کی وضاحت طلب کرتے ہوئے کہا کہ ان دستخطوں کی تصدیق عمران خان بذات خود کریں گے اگر نہیں تو پھر ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کی جائے گی۔ عمران خان اب تک ہر ادارے کی بے توقیری کرنے اور کرتے چلے جانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں وہ اپنے تئیں اپنے آپ کو سب سے بالاتر سمجھتے ہیں وہ مغرب کو بھی سب سے زیادہ سمجھنے کے دعوے دار ہیں اور ریاست مدینہ کی چیمپئن شپ کے داعی ہیں عالمی تاریخ وجغرافیے کے بھی حافظ تصور کرتے ہیں لیکن حالت یہ ہے کہ انہیں جب 44ماہی اقتدار ملاتو انہوں نے ڈٹ کر اپنے دعوؤں کی عملاً نفی کی شفافیت اور دیانتداری کے مبلغ کے طورپر انہوں نے توشہ خانے کے ساتھ جو کچھ کیا وہ انتہائی شرمناک اور مجرمانہ فعل ہے جس کے بارے میں مقدمہ بھی قائم ہوچکا ہے اور عمران خان اس کا سامنا کرنے کے بجائے تکنیکی موشگافیوں کے پیچھے چھپنے میں مصروف ہیں۔ اپنی بیٹی کے حوالے سے جھوٹ بولنے یا سچ چھپانے کے ملزم بھی قرار پا چکے ہیں۔ امانت کے حوالے سے انہوں نے شوکت خانم کے عطیات کے ساتھ جو کھلواڑ کھیلا وہ بھی قوم کے سامنے آچکا ہے بحیثیت مجموعی عمران خان کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہوچکا ہے اب وہ ہاتھ دھوکر جنرل باجوہ کے ذریعے، انہیں نشانہ بناکر پاک فوج پر حملہ آور ہوچکے ہیں فوج کی بے توقیری کے ذریعے وہ ریاست کو کمزور کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ فوج کا سیاست میں مداخلت کرنا، کسی کو بنانا اور اقتدار میں لانا کسی دوسرے کو بگاڑنا اور اقتدار سے نکالنا،فوج کا کام نہیں ہے ویسے فوج نے یہ کام اپنے تئیں،”نیک نیتی“ اور ”قومی خدمت“ اور ”قومی مفادات کے تحفظ کے لیے“ سنبھالا ہوا ہے فوج 70سال سے یہ ”قومی فریضہ“ سنبھالے ہوئے ہے کبھی وہ جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیا الحق اور جنرل مشرف کی صورت میں کھل کر یہ فرض ادا کرتی رہی ہے اور کبھی یہ فرض جنرل باجوہ اور دیگر جرنیلوں کے سیاست میں فعال مگرپس پردہ کردار کی صورت میں ادا کرتی رہی ہے لیکن ایسی فکروعمل کے باعث ریاست کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی ہے آج صورت حال یہ ہے کہ افغانستان جیسا بے توقیر ملک ہی نہیں، جرائم پیشہ طالبان کا گروہ بھی ایٹمی ریاست پاکستان کو دھمکیاں دینا نظر آرہا ہے اور ہم دفاعی پوزیشن میں کھڑے نظر آتے ہیں دہشت گردی کا عفریت صرف سرہی نہیں اٹھاچکا ہے بلکہ اب تو وہ دھڑ بھی اٹھا رہا ہے ہم ایک بار پھر لاء اینڈ آرڈر کی مشکل ترین صورت حال میں گھرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ ہمارے اندرونی حالات بھی اچھے نہیں ہیں۔ خطرناک ہیں۔ پست سطح پر ہیں۔ 
پاکستان کی تاریخ کی پہلی جمبو سائز حکومت ملکی سیاسی، معاشی اور انتظامی معاملات کو ٹریک پر لانے میں قطعاً ناکام ہوچکی ہے ہماری معیشت مکمل طورپر تباہ ہوچکی ہے دوست ممالک بھی ہماری مدد کرنے کے لیے آئی ایم ایف کے اشارہ ابرو کے منتظر ہیں اور آئی ایم ایف امریکہ کے اشارہ ابرو کا منتظر رہتا ہے معاملات گمبھیر ہیں آئی ایم ایف نے 102 ارب ڈالر کی حقیر رقم دینے کے لیے ہمارے رہے سہے کس بل بھی نکال دیئے ہیں۔ حکومت نے 102 ارب ڈالر کے حصول کے لیے آئی ایم ایف کے احکامات کی روشنی میں عوام پر ٹیکسوں کا ایک ناقابل برداشت بوجھ بھی لاددیا ہے عمران خان عوام کو سڑکوں پر آنے کی کال دینے لگے ہیں اور یہ کال بروقت بھی نظر آرہی ہے کیونکہ عوام کے پہلے اب کچھ بھی نہیں رہا ہے حتیٰ کہ کال کے جواب میں سڑکوں پر آنے کی ہمت وسکت بھی نہیں رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی قسط مل جائے گی۔ دوست ممالک سے مددوامداد بھی مل جائے گی۔ تھوڑی دیر کے لیے ہمارے معاملات میں جاری گراوٹ شاید تھم بھی بجائے لیکن پھر کیا ہوگا۔ ہم چند ماہ بعد  ایک بار پھر آئی ایم ایف کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے۔ ایسے میں ملک چلنا نظر نہیں آرہا ہے۔ ہم معاشی غلامی کے دورکی طرف بڑھ رہے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام اس غلامی کو تقویت دے رہا ہے حکمران اور مقتدر حلقے اپنے اپنے مفادات کے حصول میں مصروف ہیں۔ اللہ خیر کرے۔