پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ ہوگیا تو نیب ترامیم کیس کا فیصلہ کالعدم ہوجائے گا، چیف جسٹس فل کورٹ بنانے کی میری درخواست پر غور کریں: جسٹس منصور علی شاہ 

پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ ہوگیا تو نیب ترامیم کیس کا فیصلہ کالعدم ہوجائے گا، چیف جسٹس فل کورٹ بنانے کی میری درخواست پر غور کریں: جسٹس منصور علی شاہ 

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کے خلاف کیس کی گزشتہ روز کی سماعت کا حکمنامہ جاری کردیا، حکمنامہ میں جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ بھی شامل ہے۔

عدالت نے حکم نامے میں کہا درخواست گزار نے 16 مئی کے حکمنامہ کے تحت عدالتی سوالات کے تحریری جوابات جمع کرائے، وفاقی حکومت کے وکیل نے نیب ترامیم کے خلاف کیس خارج کرنے کی استدعا کی، بظاہر 16 مئی کے عدالتی حکمنامہ پر عملدرآمد نہیں کیا گیا، کیس کی تیز سماعت کے لیے وفاقی حکومت کے وکیل کو تحریری جواب جمع کرانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت دی جاتی ہے، 29 اگست کو وفاقی حکومت کے وکیل دلائل دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ کا نوٹ بھی حکم نامے میں شامل ہے، نوٹ میں کہا گیا ہے کہ 19 جولائی 2022 سے نیب ترامیم کے خلاف کیس سن رہے ہیں، 16 مارچ کو کیس کی 46ویں سماعت کے بعد پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ کیا،پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے مطابق آرٹیکل 184(3) کے مقدمات کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی کمیٹی بینچ تشکیل دے گی اور آئین کی تشریح سے متعلق مقدمات کی سماعت کم از کم پانچ رکنی لارجر بینچ کرے گا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون نافذ ہونے کے بعد نیب ترامیم کیس کی گزشتہ سماعت 16 مئی کو ہوئی، 16 مئی کی سماعت سے قبل میں نے کیس سننے سے متعلق چیف جسٹس پاکستان کو اپنے تحفظات سے آگاہ کیا،16 مئی کو کیس کی سماعت ملتوی کر دی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ کے نوٹ میں کہا گیا ہے کہ میری رائے تھی کہ نیب ترامیم کیس کی مزید سماعت پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس کے فیصلے کے بعد کی جائے،نیب ترامیم کیس سمیت پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون تمام زیر التوا مقدمات پر بھی لاگو ہوتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ آٹھ رکنی لارجر بینچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پر حکم امتناع جاری کر رکھا ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کے خلاف حکم امتناع عبوری حکم ہے، اگر پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کو درست قرار دیا جاتا ہے تو قانون سپریم کورٹ کے فیصلے کی تاریخ کی بجائے اپنی نافذ کی گئی تاریخ سے لاگو ہوگا، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون درست قرار دیا گیا تو نیب ترامیم کے خلاف کیس کا فیصلہ قانون کی نظر میں کالعدم قرار پائے گا۔

انہوں نے کہا کہ  میرا یہ موقف ہے کہ کسی بھی بے ضابطگی سے بچنے کے لیے آرٹیکل 184(3) کے مقدمات پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس کا فیصلہ ہونے تک نہ سنے جائیں،میں چیف جسٹس پاکستان سے درخواست کرتا ہوں کہ نیب ترامیم کے خلاف کیس کی سماعت کے لیے فل کورٹ تشکیل دیا جائے، امید ہے چیف جسٹس میری درخواست پر سنجیدگی سے غور کریں گے،نیب ترامیم کیس کے فریقین کے وکلا سے بھی بینچ کی تشکیل پر رہنمائی لی جائے، کیا موجودہ بینچ نیب ترامیم کیس سنے یا پہلے پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کیس کا فیصلہ کیا جائے یا فل کورٹ تشکیل دی جائے،فریقین کے وکلا آئندہ سماعت پر اس قانونی نکتے پر تیاری کے ساتھ آئیں۔

مصنف کے بارے میں