افغان سفیر کو واپس نہیں جانا چاہیے تھا، ان کی بیٹی تفتیش کا حصہ بنے: وزیر داخلہ

The Afghan ambassador should not have returned, his daughter was part of the investigation: Interior Minister
کیپشن: فائل فوٹو

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا ہے کہ 16 جولائی کے واقعے کے بعد افغان سفیر کو واپس نہیں جانا چاہیے تھا، ان کی بیٹی کو تفتیش کا حصہ بننا چاہیے۔

راولپنڈی میں میڈیا سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ افغان سفیر کی بیٹی کا معاملے پر گہری تفتیش کی گئی ہے، 200 سے زائد ٹیکسی ڈرائیور اور مالکان تک پہنچے، یہ اغوا کا کیس نہیں ہے، چاہتے ہیں افغان سفیر خود بھی تحقیقات میں شامل ہوں۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ عمران خان بھارت اور اسرائیل کو ایک آنکھ نہیں بھاتا، پاکستان اور چین میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ داسو واقعہ کی تحقیقات مکمل کر لی ہیں، چینی حکومت مطمئن ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے خلاف غیراعلانیہ ہائبرڈ وار شروع کی گئی جس میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ 

خیال رہے کہ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز کہا تھا کہ وزیراعظم پاکستان نے 16 جولائی کو اسلام آباد میں رونما ہونے والے افسوسناک واقعہ کا ذاتی طور پر نوٹس لیا اور وہ خود تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں، تحقیقات کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے افغان حکومت کا تعاون درکا ہو گا، واقعہ کے حوالے سے کوئی بھی چیز پوشیدہ نہیں رکھیں گے اورانصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے، تمام حقائق دنیا کے سامنے رکھیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کی جانب سے بھیجی جانے والی ٹیم کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گا، بعض قوتیں سوشل میڈیا پر جعلی خبریں پھیلا کر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب کرنا چاہتی ہیں، امید ہے افغان حکومت سفیر کو واپس بلانے کے معاملے پر نظر ثانی کرے گی، ہم افغانستان کے ساتھ اپنی انگیجمنٹ کو برقرار رکھیں گے۔وہ پیر کو وزارت خارجہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔

معاون خصوصی برائے قومی سلامتی ڈاکٹر معید یوسف اور آئی جی اسلام آباد بھی ان کے ہمراہ تھے۔ وزیر خارجہ نے کہا کہ 16 تاریخ کو اسلام آباد میں ایک افسوسناک واقعہ رونما ہوا جس کی ہم سب کو تکلیف ہے، ہم بھی بیٹیوں والے ہیں اور ان کی عزت و احترام ہم سب پر لازم ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کی اقدار مشترک ہیں۔انہوں نے کہا کہ افغانستان حکومت کی جانب سے اپنے سفیر کو واپس کا علم ہوا تو میں نے افغان ہم منصب حنیف اتمر سے رابطہ کیا اور انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات سے آگاہ کیا اور انہیں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔

انہوں نے کہا کہ میں نے واقعہ کی تمام صورتحال اور عملی اقدامات سے آگاہ کیا۔ واقعہ کے حوالے سے ہم کچھ پوشیدہ نہیں رکھیں اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے۔کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے ہمیں افغان حکومت کی جانب سے تعاون درکار ہوگا۔میں نے انہیں بتایا کہ وزیراعظم پاکستان نے ذاتی طور پر اس واقعہ کا نوٹس لیا اور وہ خود تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں، ہم حقائق ان کے اور دنیا کے سامنے رکھیں گے جبکہ ملزمان کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے گی۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس واقعہ کے بعد ہم نے اسلام آباد میں افغان سفارتخانے اور پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں قونصل خانوں کی سیکورٹی کو بڑھا دیا ہے۔وزیر خارجہ نے کہا کہ کل رات ہم نے ایک نوٹ وربل کے ذریعے ان سے کچھ تقاضے کیے ہیں، ہمیں ان سے کچھ تفصیلات درکار ہوں گی۔

مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ حنیف آتمر نے بتایا کہ انہوں نے وہ نوٹ وربل دیکھ لیا ہے۔ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ افغان سفیر کو واپس بلانے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں،ہم سفارتی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہیں، ہم افغانستان کے ساتھ روابط کا تسلسل چاہتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں امن و استحکام میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ تاشقند میں بھی وزیراعظم عمران سے ملاقات کے دوران افغان صدر اشرف غنی سے گزارش کی کہ ہمیں سوچ سمجھ کر بیانات دینا اور الزام تراشیوں سے اجتناب کرنا چاہیئے۔ہمارا مقصد واضح ہے اور وہ ہے افغانستان میں امن و استحکام ۔ہمارا نہ کسی کی طرف جھکاؤ ہے اور نہ ہی ہمارا کوئی فیورٹ، جو بھی درانداز کرتا ہے وہ افغانستان اور اس خظے کا دوست نہیں ہو سکتا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ حنیف آتمر نے خصوصی اقدامات پر وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ تحقیقات میں ہمارے ساتھ تعاون کریں گے،افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ہم مشترکہ طور پر کام کریں۔

قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا کہ پاکستان کو ہائبرڈ جنگ کا سامنا ہے،دشمن قوتوں نے پاکستان کے خلاف مختلف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔بھارت،افغانستان اور وسطی ایشیاء سے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کے خلاف غلط اطلاعات پھیلائی جارہی ہیں۔بعض قوتین سوشل میڈ یا پر غلط اطلاعات پھیلا کر پاکستان اور افغانستان کے تعلقات خراب کرنا چاہتی ہیں۔بھارتی میڈیا نے افغان سفیر کی بیٹی کی غلط تصویر سوشل میڈیا پر جاری کی۔

کچھ عرصہ قبل ہم نے ای یو ڈس انفولیب کے حوالے سے کچھ معلومات میڈیا کے ساتھ شیئر کی تھیں۔معید یوسف نے کہا کہ کچھ ہیش ٹیگز اور فیک اکاؤنٹس سے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،فرضی اکاؤنٹس سے پاکستان کے خلاف جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈا پھیلایا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہی اکاؤنٹس جو پہلے ہندوستان، افغانستان اور کچھ پاکستان سے جھوٹے پروپیگنڈا کیلئے استعمال کئے جا رہے تھے وہی اس واقعہ میں استعمال ہو رہے ہیں۔

معید یوسف نے کہا کہ ہم ان تمام اکاؤنٹس کو باقاعدگی سے مانیٹر کرتے ہیں،یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پاکستان میں سیکورٹی کی صورتحال خدانخواستہ خراب ہے۔دنیا کو ان غلط اطلاعات سے گمراہ نہیں کیا جا سکتا۔ آئی جی اسلام آباد نے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس نے 300 سے زائد کیمروں کی سکروٹنی کی اور سات گھنٹوں کی ریکارڈنگ کا جائزہ لیا ہے، ہم نے 200 سے زائد لوگوں کو شامل تفتیش کیا ہے۔

آئی جی اسلام آباد کا کہنا تھا کہ افغان سفیر کی بیٹی گھر سے پیدل نکلتی ہیں اور پھر ٹیکسی کرائے پر لیتی ہیں،ہم نے وہ ٹیکسی تلاش کی اور ڈرائیور کی تفتیش کی۔دوسری ٹیکسی وہ کھڈا مارکیٹ سے راولپنڈی کیلئے کرایہ پر لیتی ہیں،پھر ڈرائیور ٹریس ہوا اس کی تفتیش کی اور اس نے انہیں صدر راولپنڈی چھوڑا۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ پنڈی صدر کے 8 کیمروں سے ریکارڈ لیا گیا، پھر ایک تیسری ٹیکسی کرایہ پر لی گئی، اس کے بعد دامن کوہ کے کیمرے سے ٹیکسی ٹریس ہوئی جس نے سارا روٹ بتایا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد ایک چوتھی ٹیکسی کرایہ پر لی گئی وہ ایف سکس گئیں اور پھر ایف 9 جاتی ہیں اور وہاں ایمبیسی سٹاف کو فون کرتی ہیں جو انہیں گھر لے گیا۔ آئی جی نے کہا کہ ہم نے سارا روٹ ایکسپلور کیا ہے اس میں کچھ سیف سٹی کے کیمرے اور کچھ پرائیویٹ کیمروں کا ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے جبکہ ہمیں مدعیہ سے کچھ مزید معلومات درکار ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ معاملے کی تحقیقات کیلئے پانچ انکوائری ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔