عمران خان: پاکستان کے سیاسی منظرنامے کا متنازعہ چہرہ

11:19 PM, 20 Mar, 2025

عمران خان پاکستان کے سیاسی منظرنامے کی متنازعہ شخصیت ہیں۔ ان کی سیاست، بیانات اور ذاتی زندگی کے مختلف پہلوؤں نے انہیں عوام میں ایک متنازعہ مقام دلایا ہے۔ عمران خان کا سیاسی کیریئر مختلف مراحل سے گزرا۔ ان کے مختلف بیانات، حکومت کے دوران کیے گئے فیصلے، اور ذاتی زندگی کے پہلوؤں پر نظر ڈالنا ضروری ہے تاکہ ان کی سیاست کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔
اس مضمون  میں  ان کی شخصیت کے متنازعہ پہلوئوں کو نجی اخبارات اور بین الاقوامی میڈیا  میں شائع رپورٹس کی روشنی میں تیارکیا ہے ۔عمران خان کے کچھ بیانات اور سیاست کے اقدامات نے انہیں پاکستان اور بین الاقوامی سطح پر متنازعہ بنایا۔


    طالبان (ٹی ٹی پی) کے حامی کے طور پر عمران خان کی شناخت
    عمران خان نے پاکستان میں طالبان کے خلاف سخت فوجی کارروائیوں کی مخالفت کی اور ٹی ٹی پی کے خلاف فوجی اقدامات کو "غیر ضروری" قرار دیا۔ ان کے اس موقف کو "طالبان خان" کے طور پر پیش کیا گیا، جس پر وسیع تنقید کی گئی۔ ستمبر 2013 میں عمران خان نے ٹی ٹی پی کے ہاتھوں چرچ پر ہونے والے خودکش حملوں کو ایک سازش قرار دیا، جس کا مقصد امن مذاکرات کو سبوتاژ کرنا تھا۔ ان کے بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ اسلام پسند شدت پسندوں کی پوزیشن کو مستحکم کرنے والے تھے، جو پاکستان میں شدت پسندی کے عروج کا باعث بنے۔


جون 2020 میں عمران خان نے قومی اسمبلی کے خطاب کے دوران اسامہ بن لادن کو "شہید"  قرار دیاتھا، جس پر شدید تنقید کی گئی۔ اس بیان کے ذریعے عمران خان نے ایک عالمی دہشت گرد کو عزت دی، جسے سیاسی مخالفین اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں نے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف عزم کو نقصان پہنچانے کا سبب قرار دیا۔ اس موقف پر شدید اعتراضات سامنے آئے، جن میں کہا گیا کہ اس سے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف پالیسی میں کمی آتی ہے اور اسامہ بن لادن کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو نظرانداز کیا گیا۔


21 جون 2021 کو عمران خان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اسامہ بن لادن کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا، جس نے پی ٹی آئی کے انتہا پسندی کے حوالے سے موقف کو مزید واضح کیا۔ یہ نرم رویہ بعد میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات میں سامنے آیا، جس کے نتیجے میں پاکستان میں دہشت گردی کی لہر دوبارہ دیکھنے کو ملی۔

    زیادتی کے شکار افراد کے بارے میں متنازعہ بیانات

    عمران خان نے 2021 میں کہا تھا کہ جنسی زیادتی کا سبب خواتین کا کم لباس پہننا ہے، اور یہ بیان خواتین کے ساتھ ہونے والے ظلم کو جواز دینے کے مترادف سمجھا گیا۔ اس پر مختلف حقوق نسواں کی تنظیموں نے شدید تنقید کی۔ ان کے بیانات سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ وہ خواتین کے حقوق اور ان کی حفاظت کے حوالے سے حساسیت سے کمزور ہیں۔

    افغانستان سے امریکی انخلا اور طالبان کی واپسی پر عمران خان کا موقف

    عمران خان نے افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد طالبان کی واپسی کو "غلامی کی زنجیروں کو توڑنے" کے مترادف قرار دیا۔ اس پر شدید تنقید ہوئی کہ یہ بیان طالبان کے اقتدار کو جائز سمجھنے کے مترادف تھا، جس سے پاکستان کے عالمی تعلقات متاثر ہو سکتے تھے۔
عمران خان کی ذاتی زندگی اور کرپشن کے الزامات بھی ان کی سیاست پر سوالات اٹھاتے ہیں۔


    بیٹی کے حوالے سے پدریت کا انکار
    عمران خان اور سیتا وائٹ کے درمیان تعلقات اور ان کی بیٹی ٹیریان جیڈ وائٹ کے حوالے سے عمران خان کا انکار ایک طویل عرصے تک تنازعہ کا باعث رہا۔ عدالت میں پدریت کا فیصلہ آنے کے باوجود عمران خان نے عوامی طور پر اپنی بیٹی کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اس کے لیے والدانہ ذمہ داریوں کا بھی انکار کیا۔

    کرپشن کے الزامات
    عمران خان اور ان کی اہلیہ بشری بی بی پر کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، جن میں ریاستی تحائف کی غیر قانونی فروخت اور رشوت کی وصولی شامل ہے۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی حکومتی حیثیت کا فائدہ اٹھایا اورمعروف بزنس ٹائیکون    سے رشوت وصول کی۔

    القادر کرپشن کیس
    عمران خان پر 190 ملین پاؤنڈ کی کرپشن کا الزام عائد کیا گیا، جس میں یہ کہا گیا کہ انہوں نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے غیر قانونی فوائد حاصل کیے۔

 ملالہ یوسفزئی پر حملے کی مذمت سے گریز

9 اکتوبر 2012 کو جب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ملالہ یوسفزئی پر حملہ کیا، عمران خان نے ان سے اس حملے کی صریحاً مذمت کرنے سے گریز کیا۔ اس بارے میں ایک صحافی  سید طلت حسین نے عمران خان سے اس حملے پر سوال کیا، تو انہوں نے ٹی ٹی پی کا ذکر کیے بغیر اسے ایک "معاشرتی مسئلہ" قرار دیا اور اس گروہ کی مذمت کرنے سے گریز کیا۔ اس رویے کو "کمزوری" اور "کمپرومائزڈ" قرار دیا گیا۔
اس بارے میں 2012 میں نجی انگریزی اخبار "ایکسپریس ٹربیون" میں شائع ہونے والے ایک مضمون "شرم   کرو خان صاحب " میں عمران خان کی اس رویے پر شدید تنقید کی گئی۔ مضمون میں کہا گیا کہ عمران خان کا یہ موقف دہشت گردوں کو حوصلہ دیتا ہے اور پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو کمزور کرتا ہے۔

عمران خان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ انہوں نے سیاست میں بے چینی اور تشدد کو فروغ دیا۔مبصرین کے نزدیک عمران خان کے سیاسی رویے اور بیانات نے پاکستان میں سیاسی بے چینی اور تشدد کو بڑھاوا دیا ہے۔

    سیاسی بے چینی اور تشدد
    عمران خان کی زندگی کے گوشوں پر نظر دوڑائی جائے تو ماضی کی ورق گردانی کرتے ہوئے  9 اپریل 2022 کے بعد اور 9 مئی 2023 کے واقعات نے اس حقیقت کو اجاگر کیا کہ عمران خان کے حامیوں نے حکومت، فوج اور انٹیلی جنس اداروں پر حملے کیے۔ ان کے بیانات نے سیاسی مخالفین کے ساتھ نفرت اور تناؤ بڑھایا، جس نے ملک میں سیاسی ماحول کو مزید پیچیدہ اور کشیدہ بنا دیا۔

    سول نافرمانی کی تحریک
    عمران خان نے کبھی کبھار اپنے حامیوں کو سول نافرمانی کی تحریک چلانے کی ہدایت دی، جس میں انہوں نے عوام سے یوٹیلٹی بلز جلانے کو کہا۔ تاہم، ان کے اپنے عمل اس سے متضاد تھے، کیونکہ انہوں نے خود اپنے بل بروقت ادا کیے۔ اس دوہری پالیسی نے ان کی سیاسی ساکھ کو مزید متاثر کیا۔

    قانون کی حکمرانی کا احترام نہ کرنا

    عمران خان نے بار بار عدلیہ اور قانون کے خلاف بیانات دیے، خصوصاً جب انہوں نے توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے احکام کو نظرانداز کیا۔ اس کے نتیجے میں ان کے حامیوں نے پولیس سے تصادم کیا، جو کہ ریاستی اداروں کے ساتھ ان کی بے احترامی کو ظاہر کرتا ہے۔

عمران خان کے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں تناؤ

عمران خان کی حکومت کے دوران سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں مشکلات آئیں۔ عمران خان نے سعودی قیادت پر کشمیر کے مسئلے پر خاموشی اختیار کرنے اور ان کی حکومت کو کوالالمپور سمٹ میں شرکت سے روکے جانے کا الزام عائد کیا۔ اس کے علاوہ، عمران خان نے سعودی عرب کو 3 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی میں تاخیر کے بعد تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید تناؤ آیا۔

عمران خان کی سیاست نے انہیں ایک متنازعہ شخصیت بنایا ۔ ان کی حکومت کے دوران کیے گئے فیصلے، ان کے بیانات، اور ان کی ذاتی زندگی کے معاملات ہمیشہ عوامی بحث کا موضوع رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف ان کے حامی انہیں ایک محسن اور تبدیلی کا علمبردار سمجھتے ہیں، وہیں ان کے مخالفین ان کے بیانات اور حکومتی اقدامات کو ملک کی سیاسی، سماجی اور معاشی استحکام کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ عمران خان کی سیاست پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں ایک پیچیدہ اور متنازعہ باب کے طور پر جانی جائے گی۔

مزیدخبریں