کتب خانہ صرف بالغوں کے لیے

کتب خانہ صرف بالغوں کے لیے

کیسے ممکن ہے کہ اکبر بادشاہ کے دور میں مالی باقاعدگیاں نہ ہوتی ہوں کیونکہ اس دور میں ہر سلطنت میں شاہی نجومی، شاہی طبیب اور کوتوال کا ہونا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ اس دور میں بھی یقینا ملک میں افراتفری بھی پھیلتی ہوگی اور دوسرے معاشرتی جرائم بھی ہوتے ہوں گے … اور رہی بات سازشیوں کی… وہ تو ہر دور میں کام جاری رکھتے ہیں چاہے زیرزمین ہوں یا…
’’جہاں قلم وہاں پولیس‘‘
’’ جہاں لوٹ مار وہاں پکڑ دھکڑ‘‘
’’ جہاں بادشاہ وہاں بہت کی شادیاں‘‘… یہ وہ بنیادی اصول تھے جن پر مغلیہ سلطنت کھڑی دکھائی دیتی تھی۔ مغلیہ دور میں مشاعرے اور دوسری ادبی محافل کا انعقاد لگتا ہے ہر شام ہونا ضروری تھا۔ مرزا غالب ، مرزا سودا، میر تقی میر، مصحفی وغیرہ کے قصے کتابوں میں موجود ہیں اور متاثر کن ہیں کہاں اس دور کے شاعر اور کہاں ہمارا دور ؟
 ایسے ہی ناچ گانا اور موسیقی کے پروگرام بھی معمول کا حصہ تھے۔ اس کے علا وہ مغلیہ دور میں ہر وقت جنگ کی تیاری جاری رہتی تھی۔ مغلوں کے آخری دور میں یہ جنگ میدان کے بجائے ان کے اپنے گھروں میں منتقل ہوگئی اور جس طرح وہ دشمن کو تہہ تیغ کرنے کے جدید طریقے استعمال کرتے تھے وہی طریقے انھوں نے گھروں میں استعمال کیے اور خوب رسوا ہوئے… یقین نہ آئے تو تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔مغل جیسے رسوا ہوئے اور ہندوؤں کے ہاتھوں جو درگت اس کی بنی، اس پر ہندو بھی شرمندہ ہیں اور رہی بات مغلوں کی … ان کا آخری دور شرمندگی ذلت اور رسوائی سے بھر پور فلم کی عکاسی کرتا ہے۔ رہی بات تاریخ کی تو ایک خاص قسم کی بے ایمانی اس دور میں اس حوالے سے بھی ہوتی رہی ہے کیونکہ مختلف مؤرخ مغلیہ دور کی تاریخ مختلف انداز میں تحریر کرتے رہے ہیں۔ کہیں اس دور کی تاریخ پڑھ کر رونا آتا ہے تو کہیں تاریخ پڑھ کر انسان ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو جاتا ہے… 
تاریخ دان بھی ایک خاص قسم کا عہد ہ تھا اور مجھے لگتا ہے ہر بادشاہ تاریخ لکھنے والے سے متاثر ہوتا تھا کیونکہ ممکن ہے تاریخ دان اچھے بھلے مرد کو اپنی تحریر کے بل بوتے پر ’’ہیجڑا‘‘ ثا بت کر دے کیونکہ مجھ جیسے لکھاری تحریر میں خوبصورتی پیدا کرنے کے لیے ایسے 
’’تجربے ‘‘کرتے رہتے ہیں… حالانکہ اس سے ان کی اپنی ساکھ بھی خراب ہوتی ہے…
تاریخ کی کتابوں میں میں نے ’تزک بابری‘… ’ تزک جہانگیری‘ اپنے پاس محفوظ رکھی ہوئی ہے اور میری لائبریری میں ایک بڑا سا خانہ ایسی کتابوں کے لیے مخصوص ہے اور اس پر میں نے سرخ سیاہی سے بڑا بڑا لکھ چھوڑا ہے۔ ’صرف بالغوں کے لیے‘…
میری لائبریری کے اس خانے میں سعادت حسن منٹو کی کتابیں، کشور ناہید کی ’بری عورت کی کتھا‘ ، ’’یادوں کی بارات‘‘ جوش ملیح آبادی کی آپ بیتی ہے اور بہت سی دوسری انگلش اردو کتابیںجن کے میں نام یہاں بیان نہیں کر سکتا…آپ خود اندازہ کریں کیونکہ میری تحریر تو جہ سے وہی پڑھ سکتا ہے جس کا رہن سہن ، جس کے طور اطوار مجھ جیسے ہوں…
 مغل دور میں ’’تزک بابری‘‘ میں ظہیر الدین بابر اپنی بہت سی ’’ناپسندیدہ عادات ‘‘کا وافر مقدار میں تذکرہ کرتا ہے اور کہیں کہیں اپنی کچھ ایسی عادات پر خوش بھی ہوتا دکھائی دیتا ہے…یعنی رشک کرتا ہے معجون کھانے پر ؟ … 
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے مغلیہ سلطنت کے زوال کے اسباب بتانے کے بجائے یہ انوکھا موضوع کیوں چھیڑ لیا ہے… در اصل ایک دو مہینوں سے میں نے چینلز پر چلنے والے مباحثے دیکھنا چھوڑ رکھے ہیں اس کی وجہ ’وہی‘ ہے جس کے باعث آپ بھی یہ مباحثے نہیں دیکھ ر ہے …؟ شکر ہے آپ سمجھ گئے… ورنہ…؟؟
رہی بات اخبارات کی ان میں چونکہ آج کل اشتہارات بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لیے ان میں سے خبریں تلاش کرنا خاصا مشکل کام ہے اور اشتہارات کے درمیان سے خبریں تلاش کرتے 
اس دور میں … 
’’انسان اور لوٹے میں فرق ثابت کرنا مشکل تھا‘‘…
’’انسان کو جھوٹ بولنے کا عادی کرد یا گیا تھا‘‘
’’انسان بھول جا تا کہ اسے ماں باپ اور اولاد کے ساتھ جھوٹ نہیں بولنا ہوتا‘‘… 
’’انسانوں نے اپنی تھوڑی سی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اربوں روپے فراڈ اور دھو کہ دہی سے لوٹے … محض ہوس کی خاطر لیکن بعد میں وہ ان لوٹے ہوئے نوٹوں کو سنبھالنے کے چکر میں ذہنی توازن کھو بیٹھا… 
’’لوگوں کا بس چلتا تو وہ…ڈبل روٹی کی جگہ نوٹ چائے میں ڈیوڈ بوکر کھاتے۔‘‘ 
’’لوٹ کا مال کچھ عرصہ بعد ردی اخبار جیسا ہو گیا…. جو بعد میں انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے آگ میں جھونک دیا‘‘… 
وغیر وغیر واور…وغیرہ…
میرا بیٹا کالج میں گیا تو حسب حکم اسی نے تمام اساتذہ کو تلاش کر کے عزت سے سلام کیا اُن کے نمبر… فون نمبر حاصل کیے (اُن کو جان کر حیرت ہوئی کہ کوئی ہے جو استاد سے رابطے میں رہنا چاہتا ہے ورنہ آج کل تو ’’بچے‘‘ ’’صرف پڑھتے‘‘ جاتے ہیں اور استاد صرف ’’پڑھاتے‘‘ جاتے ہیں۔ رشتے ختم تربیت ختم اور احترام‘… پتہ نہیں؟ آخری کام لائبریری جانا تھا… وہ بتاتا ہے کہ بند تھی پھر گیا دروازہ بند تھا کھولا… تو انگریزی فلموں والی آواز آئی… ’’چاوؤں‘‘ جیسے کئی صدیوں بعد بہت بڑے ہال کا بہت اونچا دروازہ کھلا ہو (یہاں میوزک آپ خود مرضی کا ڈال لیں) کوئی صاحب تھے انہوں نے نہایت سنجیدگی بلکہ اذیت ناک انداز میں ویلکم کیا … جس سے عرف عام میں مراد تھی… کاکا خیر ہے… تم کدھر لائبری میں منہ اٹھائے چلے آ رہے ہو…؟! کمپیوٹر نے کتاب سے تعلق ختم کر دیا ہے۔ آج کل وہ جو لطیفہ چل رہا ہے شہر میں اور لڑکے لڑکیاں اس کو خوب انجوائے کر رہے ہیں…؟!
لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی میں بڑے اہتمام کے ساتھ کتاب میلے کا انعقاد کیا گیا۔ شہر کے سبھی بڑے اداروں نے اپنے اپنے سٹال لگائے اور کتابوں کی نہایت رعایتی قیمت پر ترسیل کا انتظام کیا کہ بچے ذوق و شوق سے کتابیں خرید خرید کر گھر لے جائیں (شاید پڑھ بھی لیں) اگلے دن جو رپورٹ پیش ہوئی ملاحظہ کریں۔ 
’’کل جو کتاب میلہ یونیورسٹی میں منعقد ہوا اس میں 992 برگرز  830 شوارمے تین ہزار کولڈ ڈرنکس اور بارہ عدد کتابیں فروخت ہوئیں‘‘… 
میری تازہ نظم ملاحظہ کریں: 
پتھر کو دعا دو گے تو پتھر بھی ہنسے گا
پتھر کو رلاؤ خون اس سے رسے گا
مسند پہ بٹھاؤ گے تو جھوم اٹھے گا پتھر
دُکھ اپنا سناؤ گے تو گھوم اٹھے گا پتھر
پتھر کو حیا آتی ہے شرماتے ہیں پتھر
جب ظلم بڑھے حد سے تڑپ جاتے ہیں پتھر
محسنؔ مجھے پتھر نے کہا آنے لگا ہے
وہ دور پھر انسان پتھرانے لگا ہے