ایک عشائیہ ،جہاں خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ فائنل ہوئی

ایک عشائیہ ،جہاں خیبرپختونخوا کی نگران کابینہ فائنل ہوئی

 لحاظ علی 
رواں ماہ کی 25 جنوری کو خیبر پختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ اعظم خان سہ پہرکے وقت اپنے دفترسے نکل کر گورنر کے پرنسپل سیکرٹری امجد علی خان کے دفتر میں داخل ہوئے۔ امجد علی خان یکدم اٹھے اور کہا    ''سر آپ نے مجھے بلا لیا ہوتا۔'' نگران وزیراعلیٰ نے جواب دیا ''میں ''مجھے ذ را گورنر غلام علی سے ملنے کیلئے جانا ہے ان سے کچھ مشاورت کرنی ہے۔‘‘ اور اس کے ساتھ ہی اعظم خان پورج میں کھڑی گاڑی میں سوار ہو کر گورنر ہائوس کی طرف روانہ ہو گئے۔

گورنر ہائوس ہاؤس وزیراعلیٰ ہاؤ س کے بالکل سامنے واقع ہے جہاں  پہنچ کر گورنر حاجی غلام علی اعظم خان ان کا استقبال کرتے ہیں۔ از را ہے  مذاق   کہا  کہ سابق گورنر محمود خان تو اکثر ہیلی کاپٹر سے اسی گورنر ہاؤس کے ہیلی پیڈ لان  پر  اتر جاتے تھے لیکن کبھی  ہاؤس آئے نہیں آئے۔ شکر ہے آپ نے وہ رکاوٹیں توڑ دیں ۔ 

ملک اور صوبے کی مجموعی سیاست پر بحث کے بعد اعظم خان گورنر غلام علی کو  کہتے ہیں کہ کابینہ کی تشکیل میں بہت تاخیر ہو گئی ہے ’’میرے خیال میں اب نام فائنل ہو جانے چاہئیں۔‘‘  ،گورنر ہاؤس کے  لاؤنچ میں بیٹھے دونوں رہنمائوں نے فائلوں کو کھولا اور ناموں کوحتمی شکل دیناشروع کی۔  

نگران وزیر اعلیٰ نے انہیں کہا کہ مسعود شاہ میرے ساتھ کام کر چکے ہیں اور قابل آدمی ہیں۔ ’’کام کے بندے ہیں اسی طرح عبدالعلیم خان قصوریہ کو بھی میں ذاتی طو ر پر جانتا ہوں۔ کابینہ میں یہ دو نام میری طرف سے ہونگے ہوں گے۔‘‘ گورنرحاجی غلام علی ہنس دیتے ہیں اور منکسر المزاجی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہیں ’’لیتاہے اورکہتاہے کہ پوری کابینہ ہی  آپ کی ہے۔‘‘ اسی دوران اکرم خان درانی کے جاننے والے بنوں سے تعلق رکھنے والے حامد شاہ کانام بھی فائنل ہو جاتا ہے، ایڈووکیٹ ساول نذیرکے نام کو بھی کابینہ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔  جے یوآئی جمعیت علماءِ اسلام (فضل)  سے تعلق رکھنے والے بٹگرام کے رہنما عالمزیب کے صاحبزادے بخت نواز کے متعلق غلام علی کہتے ہیں یہ بڑا کام کا بندہ ہے،  مولانا فضل الرحمان صاحب نے بھی اس ان کی سفارش کی تھی۔ اس طرح اگلی کابینہ میں ان کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے۔ 

کچھ دیر بعد حاجی غلام علی کہتے ہیں   کہ فضل الہی 2018ء میں بھی نگران کابینہ کے رکن تھے اور  سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر رہ چکے ہیں، یہ بھی کابینہ کے لئے ایک موزوں انتخاب  ہے ۔  اور یوں اسے بھی کابینہ کی فہرست میں جگہ د یدی  جاتی ہے ۔عدنان جلیل اے این پی عوامی نیشنل پارٹی کے ایک سینئر رہنما مرحوم حاجی عدیل (مرحوم) کے بیٹے   کے نام پر بھی جلد ہی اتفاق ہو گیا۔ ضلع کابیٹا ہے گورنرغلام علی کہتے ہیں عدنان جلیل کاتعلق اگرچہ اے این پی سے ہے لیکن وہ جے یوآئی کیلئے بھی قابل قبول ہے دِیر سے تعلق رکھنے والے شفیع اللہ خان کے متعلق حاجی غلام علی نگران وزیراعلیٰ کو بتاتے ہیں کہ یہ پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر نجم الدین کے کزن ہیں ’’انہیں کاکزن ہے اوراسے پیپلز پارٹی کے کوٹے میں جگہ دینی ہو گی۔‘‘ 

غلام علی مزیدبتاتے ہیں کہ نگران کابینہ کے لئے نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے میں شاہد خان نوشہرہ سے انتخابات کے دوران امیدواربھی تھے، ان کا  نام زیر بحث آیا تو اعظم خان کہتے ہیں  کہ پرویز خٹک نے ان کا نام دیا تھا اسے انہیں ’’ہر حال میں کابینہ کاحصہ بنایا جائے۔‘‘ اسی طرح عدنان جلیل اور شاہدخٹک کے نام بھی فائنل ہو جاتے ہیں۔ 

حاجی غفران کے نام کو حتمی شکل دیتے ہوئے اتفاق کیا جاتا ہے کہ صوابی سے تعلق رکھنے والے حاجی غفران کا تعلق اگرچہ قومی وطن پارٹی سے ہے لیکن جے یوآئی کے کئی رہنمائوں نے بھی اس کی سفارش کی ہے۔ اسی اثناء میں نگران وزیراعلیٰ اعظم خان کہتے ہیں شاہدخٹک کے علاوہ پرویز خٹک نے ذاتی طور پر خوشدل خان ملک کا نام بھی تجویز کیا تھا، یہ وفاقی وزارت داخلہ میں جائنٹ سیکرٹری رہ چکے ہیں اور اپنے وقت کے اچھے آفیسرتھے افسر تھے۔ اعظم خان انہیں مزید بتاتے ہیں کہ  خوشدل خان کا تعلق ضلع نوشہرہ کے ایک گاؤں اکبر پورہ نوشہرہ سے ہے۔ غلام علی کہتے ہیں کہ وفاق میں پاکستان مسلم لیگ  ن کی حکومت ہے اور ہم ان کے اتحادی ہیں۔ امیر مقام نے سوات کے سابق ضلع ناظم محمد علی شاہ کانام دیا ہے اور وزیراعظم نے بھی کہا تھا کہ اس کو کابینہ کاحصہ بنایاجائے۔

تاج محمد آفریدی کے نام سامنے  کو سن کر گورنر اور نگران وزیراعلیٰ ہنس   پڑتے ہیں اور کہتے ہیں ’’اس پر کسی کو اختلاف نہیں ہو گا۔‘‘ قبائلی ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر تاج محمد آفریدی تحریک اصلاحات کے رہنما الحاج شاہ گل کے بھائی ہیں۔ 
نگران وزیراعلیٰ گورنر کودیکھ کر کہتے ہیں کہ جسٹس (ریٹائرڈ)  ارشاد قیصر کا نام پاکستان تحریک انصاف نے دیا تھا ’’یہ خاتون پشاور ہائیکورٹ کی جج رہ چکی ہیں۔‘‘ غلام علی ہنس کر کہتے ہیں   کہ پاکستان تحریک انصاف کو اتناحق دیناچاہئے کہ ان   کی پسند کے  چند افراد بھی کابینہ کاحصہ بنیں۔  منظور آفریدی کو فہرست میں شامل کرتے ہوئے گورنر غلام علی کہتے ہیں ان کا  مولانا فضل الرحمان کے ساتھ براہ راست تعلق ہے۔ یہ 2018ء میں نگران وزیراعلیٰ بنتے بنتے رہ گئے تھے ،اب انہیں کم از کم  کابینہ کا حصہ تو بنایا جانا چاہئے۔

 نگران وزیراعلیٰ اعظم خان کہتے  ہیں کہ گورنر صاحب آئین کے تحت خیبر پختونخوا کے پندرہ وزراء کے نام مکمل ہو گئے ہیں ۔ ان تمام امور کو نمٹاتے نمٹاتے رات ہو گئی تو گورنر غلام علی نے نگران وزیر اعلیٰ کو کھانے پر روک لیا ۔  کہتے ہیں  عشائیہ کرلیتے ہیں باقی کام بعدمیں کرلیتے ہیں کھانے کی میز کی طرف جاتے ہوئے کیلئے اٹھتے وقت نگران وزیراعلیٰ نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف نے نگران کابینہ کیلئے انہیں سات نام دئیے تھے جس پر  ،گورنر غلام علی بولے کہ ہ ’’محمود خان کا دور گزر گیا،  اب آپ کا دور ہے (یعنی کہ کابینہ کی تشکیل آپ کی صوابدید ہے)۔‘‘ حاجی غلام علی نے کہا کہ سابق وزیر اعلیٰ محمود خان نے بحیثیت وزیراعلیٰ اپوزیشن کیساتھ کے ساتھ کئی تحریری معاہدے کئے تھے لیکن بعد میں ان سے پھر گئے ’’روگردانی کی بس یہ نام کافی ہیں، شخصیت کودیکھ کر ان کے تجربے کے مطابق انہیں محکمے بھی دیجئے گا۔‘‘ 
جمعیت علماءِ اسلام (فضل) کے ایک  اہم رہنما بتاتے ہیں کہ نگران کابینہ کی تشکیل سے قبل پی ڈی ایم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ نے کابینہ کی تشکیل کے لئے اپنی ایک فہرست بنائی تھی جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے بھی نگران وزیراعلیٰ کو اپنی ایک الگ فہرست تھمائی تھی۔ اسی طرح کچھ نام اہل دانش نے دئیے تھے۔ جمعیت علماءِ اسلام (فضل) جے یوآئی  کی صوبائی قیادت کے کئی رہنما اپنے رشتہ داروں کو کابینہ میں جگہ دینے کیلئے کے لئے کوشاں تھے لیکن مولانا فضل الرحمن نے اس فہرست کو حتمی شکل دی تھی۔ 
اس سے قبل گورنر غلام علی نے عوامی نیشنل پارٹی اے این پی ، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت سے بھی مشاورت کی تھی۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے پانچ پانچ نام دئیے تھے لیکن ان کے حصے میں صرف ایک ایک وزارت  آئی ہے ۔ جے یوآئی کے رہنما مزید بتاتے ہیں کہ کابینہ میں بیشتر اراکین کروڑ پتی نہیں ارب پتی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی مالی حیثیت کو ''صاحب حیثیت''کودیکھ کر ان کے کو محکمے تفویض کئے جائیں گے۔ نام بھی دئیے جائینگے ساتھ ہی وہ مزید بتاتے ہیں ’’اس دفعہ لوگوں کی صوبائی کابینہ میں دلچسپی اس لئے بھی زیادہ تھی کیونکہ یہ کابینہ تین مہینوں    کیلئے نہیں نو مہینوں کیلئے معرض وجودمیں آئی ہے۔‘‘