مہنگائی اورعوامی نفرت

 مہنگائی اورعوامی نفرت

 تحریر کے آغاز میں ایک بات تو عرض کردوں کہ میں نے بہت دن پہلے اپنی فیس بک پر بھی سٹیٹس لگایا تھا کہ وہ لوگ جو عمران نیازی کے ساتھ سابق تعلق کی بنیاد پر میرے دوست ہیں وہ مجھے ان فرینڈ کرکے جا سکتے ہیں۔اس کے بعد میں نے روز نامہ نئی بات میں تین اقساط میں ”گڈ بائے عمران خان“ کے عنوان سے بھی کالم لکھے لیکن ایسا ایسا بے شرم ہے کہ کہیں نہ کہیں سے روزانہ کی بنیاد پر کوئی نہ کوئی مجاہدِ عمران نیازی کسی نہ کسی بل سے نکل کر واویلا مچانا شروع کردیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عبد العلیم خان سے میرا تعلق بھائیوں جیسا ہے اورمجھ سے بہت پہلے یہ تعلق عمران خان کے ساتھ تھا ٗ جس سے عمران خان کے شوکت خانم کوکروڑوں روپیہ فنڈ جاتارہا اورحیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس دن عبد العلیم خان نے پی ٹی آئی کے طرف سے چلنے والی نازیبا سوشل میڈیا کمپین رد عمل میں ویڈیو پیغام ریکارڈ کرایا اُس رات بھی عبد العلیم خان کو شوکت خانم کراچی کی طرف سے شکریے کا خط موصول ہوا کہ ”آپ نے 50 پچاس لاکھ کے جو چار چیک دیئے تھے اُس کا چوتھا چیک بھی کیش ہو گیا ہے جس کیلئے ادارہ آ پکا شکرگزار ہے۔“ عبد العلیم خان نے کروڑوں تحریک انصاف پرخرچ کیے اوربقول جاوید چوہدری کے عمران خان نے عبد العلیم خان کو اُن 10افراد کے نام بھی لکھوائے جن کو اقتدار میں آ کر انہوں نے پھانسی دلوانی تھی۔ عبد العلیم خان کو وزیر خوراک اور سینئر وزیر پنجاب عمران خان نے لگایا تھا اوریہ عمل عمران خان نے نیب سے عبد العلیم خان کے فارغ ہونے کے بعد بھی کیا لیکن عجیب بات یہ ہے کہ آج اگر وہ عمران خان کی بے وفائی کی وجہ سے پارٹی چھوڑ گئے ہیں تواس کا جواب عمران خان دے گا یا خواجہ جمشید امام؟ میں بطور ایک سیاسی ورکرعبد العلیم خان کو عمران خان سے ہزار گنا بہترانسان سمجھتا ہوں کہ وہ آنکھ کی شرم والا انسان ہے اورپھر خرچ کرنے والا اورمانگنے والا کیسے برابرہو سکتے ہیں؟ جب عمران خان کا معیار ہی جواریے ٗ چپڑاسی اورڈاکو رہ گئے تو وہاں عزت دار آدمی کی گنجائش ہی کہاں رہی تھی۔ سو تحریک انصاف کے ورکرزسے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنے قائد سے سوال کریں کیوں کہ جب عبد العلیم خان نے تحریک انصاف جوائن کی مجھے اُس وقت تحریک میں کام کرتے ہوئے 15 سال ہوچکے تھے۔عمران خان نے اپنی زندگی میں ایک ہی سچ بولا ہے کہ”اب تحریک انصاف کو صرف تحریک انصاف ہی برباد کرے گی۔“ سو عمران نیازی اوراُس کی سکینڈ رلیڈ شپ یہ کام دیانتداری سے کر رہی ہے۔
مجھے وسوسہ اٹھ رہا ہے کہ میاں محمد نواز شریف کے نواسے اورمحترمہ مریم نواز کے برخوردار جنید صفدر کو پاکستان مسلم لیگ (نواز) کی یوتھ ونگ کا صدر نامزد کردیا جائے گا اورموجودہ حالات میں جب کہ پاکستان میں موروثیت کے خلاف ایک بڑا ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے میرا نہیں خیال کہ ایسا کوئی فیصلہ دانشمندانہ ہو گا۔ ایسا 
میں نے بہت سوچنے کے بعد لکھا ہے کہ موجود ہ حالات میں جنید صفدر کے علاوہ کوئی دوسرا قابل اعتبار رشتہ محترمہ مریم نواز کے پاس نہیں اورمسٹر صفدر اس عہدہ کیلئے بزرگ تصور ہوچکے ہیں۔
پاکستان کے موجودہ حالات ایک دو دن یا ایک دو ماہ یا پھرایک دو سال میں نہیں بگڑ ے سب نے اپنا حصہ بقدر جثہ اس میں ڈالا ہے ٗ یہ ہر سابق حکومت کی بدترین ناکام پالیسیوں کا نتیجہ ہے جس نے آج پاکستان کو ایسی تیز گام ریل کے سامنے لا کھڑ ا کیا ہے جس کے بریک فیل ہو چکے ہیں۔ مہنگائی کی دلدل میں گردن تک اتراہوا پاکستان بے بسی کے عالم میں اپنے گرد و نوا ح میں کھڑے تماش بینوں کو دیکھ رہا ہے۔ کوئی اس پر ایٹم بم گرانے کی تجویز پیش کر چکاہے۔ کسی کا خیال ہے کہ یہ سری لنکا بنے گا ٗ کوئی اس کھیل تماشے کو دور سے دیکھ کر لطف اندوز ہو رہاہے۔ کسی کے نزدیک یہ سب سیاستدانوں کا کیا دھرا ہے کوئی اسے سول اورملٹری بیوروکریسی کی مداخلت کا نتیجہ قرار دے رہا ہے اورکوئی یہ خیال کرتا ہے کہ اپنا دیس عالمی طاقتوں کی تجربہ گاہ رہی ہے۔ اِن میں سے کسی بھی موقف کو تسلیم کرلیں آپ کو اس بربادی کرتے ہوئے ہر منظر نامے سے پاکستانی عوام مائنس ہی نظر آئیں گے۔
اب اگر آپ عوام سے مراد انسانوں کا ہجوم لیتے ہیں تو میں اسے ماننے کیلئے تیار نہیں کیونکہ یہ ہجوم آپ نے خود تیار کیا ہے۔ آپ کو شہری نہیں ووٹر چاہئیں اور وہ سب کے پاس ہیں۔اگر نہیں ہیں تو پاکستان کے پاس کچھ نہیں ہے کیونکہ جنہوں نے پاکستان کے دفاع کی آئینی ذمہ داری لے رکھی ہے انہوں نے پیپلز پارٹی کو عوام سے دور رکھ کر خود کو اپنا مخالف کر بنا رکھا ہے۔ مسلم لیگ ن کے محافظوں کے ساتھ عہدو پیماں اپنی دکان بڑھا چکے اور تجدید محبت کا کوئی نیا عہد نامہ تا حال ہوتا دکھائی نہیں دیتا کہ نوازشریف شاید اپنی آخری لڑائی باوقار طریقے سے لڑنا چاہتا ہے۔ عمران نیازی نے فوجی جنتا کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کردیا ہے وہ کبھی فوج کیلئے قابلِ اعتماد نہیں رہیں گے بالخصوص پاکستان آرمی کو ڈی سائز کرنے کی باتیں ادارے کیلئے الارمنگ ہیں لیکن عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ اُس کے دائیں بائیں یاتو ایکس سروس مین کے بچے ہیں یا پھر تاجدارِ برطانیہ کے پرانے وفادار سو اِ ن حالات میں تضاد کو تحریک انصاف کی سیکنڈ لیڈرشپ بڑھاوا دے کر کسی وقت بھی اقتدار بانٹنے والوں کے ساتھ ساز باز کرکے پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحادی بن سکتے ہیں کیونکہ آصف علی زرداری اس حوالے سے پاکستان کا سیاسی خاتم طائی ہے جو بدترین مخالفین سے بھی مکالمے پر یقین رکھتا ہے۔ عمران خان نے ہمیشہ رول آف لا کی بات کی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے جن برطانوی عدالتوں میں اُس نے بوتھم پر فتح حاصل کی تھی ٗ پاکستان میں اُس نے انہی عدالتوں کو لونڈوں کا کھیل بنا رکھا ہے۔ جہاں شب و روز اس نے اپنے آگے تماشا لگا رکھا ہے۔
آصف علی زرداری پر آپ ہر الزام لگا سکتے ہیں لیکن کسی دہشتگرد تنظیم سے رابطے کا تو الزام بھی اُس پر نہیں لگ سکتا جبکہ دہشتگرد تنظیم کی ترجمانی کے حوالے سے عمران خان کا اپنا ماضی ٗ حال اورمستقبل اس حد تک شرمناک ہے کہ ایک وقت میں وہ برملا یہ کہتا رہا کہ طالبان سے مذاکرات لازمی کرنے چاہیے کیونکہ اگر طالبان سے افواج ِ پاکستان کو شکست ہو گئی تو ہم مذاکرات کی پوزیشن میں بھی نہیں رہیں گے ٗ مجھے زندگی میں اس سے برا سیاسی بیان سننے کونہیں ملا کہ پاکستان کی وزارتِ عظمی کا امید وار ایک دہشتگرد گروپ کے ہاتھوں دنیا کی پانچویں بڑی ایٹمی فوج کی شکست کا تصور بھی کرے۔ امریکہ کے افغانستان سے نکلتے ہی عمران خان کے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اورسابق آرمی چیف کے خواہشمند نے افغانستان میں بیٹھ کر نہ صرف طالبان کے ساتھ چائے پی بلکہ وہ تصویر وائرل بھی کرائی۔میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ اس تصویرکووائرل کرا کر کیا مقاصد حاصل کیے گئے۔ پاکستان کے بدترین معاشی حالات ہماری تمام سیاسی جماعتوں کا تمسخراڑا رہے ہیں۔ بے یقینی کی فضا نے ہر شہری کو متفکر کر رکھا ہے ٗ یہی حالات رہے تو میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں عام آدمی خاموشی سے آپ کی بری معیشت کی بھینٹ چڑھنے کیلئے تیار ہو گا۔ بھوکوں کا یہ گروہ جس دن باہر نکلا اُس دن کسی کے پاس کچھ نہیں بچے گا نہ ہیروشپ نہ مقبولیت اور نہ ہی کسی الیکشن کی تاریخ۔۔۔ کیونکہ جان لیوا مہنگائی نے عوامی نفرت میں خوفناک حد تک اضافہ کردیا ہے۔