سیلاب تو گزرگیا،مگرآسام کے باسی تاحال حکومتی امداد کے منتظر،تباہ حال گھروں میں  ہی لوٹ گئے 

سیلاب تو گزرگیا،مگرآسام کے باسی تاحال حکومتی امداد کے منتظر،تباہ حال گھروں میں  ہی لوٹ گئے 

آسام: بھارتی ریاست آسام میں سیلاب کے گزرنے کے بعد آسام کے  باس تاحال حکومتی امداد کے منتظر ہیں  اور تباہ حال گھروں میں واپس لوٹنے پرمجبور ہیں۔ شمالی مشرقی ریاست میں  مڑگائوں  میں لگ بھگ دولاکھ چالیس ہزار افراد رہائش  پذیر ہیں، ان کا پیشہ ماہی گیری ہے ۔  وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔  

واضح رہے کہ  دو تین ماہ قبل بھارت کی مختلف ریاستوں میں سیلابی صورتحال تھی اوراس وجہ سے لگ بھگ بھارت ڈوب گیا تھااور خاصا نقصان ہوا تھا۔  بڑے شہروں میں تو بحالی ہوگئی لیکن آسام کی چھوٹی ریاستوں میں  بحالی نہ ہونے کے برا بر تھی اور حکومتی وعدے دعووں تک ہی محدود رہے اسی وجہ سے بہت سے لوگ اسی صورتحال میں اپنے گھروں واپس لوٹ گئے۔ 

آسام کے قرب میں گائوں کے پانی کے بہائو میں تیزی کے باوجود رہتے ہیں۔ وہاں کے رہائشی اس وقت اپنا گھربار چھوڑ دیتے ہیں جب  پانی زیادہ ہوجاتا ہے اور سب ڈوب رہا ہوتا ہے  لیکن ریلیف کیمپوں کو چھوڑ کر واپس کچھ عرصے کے بعد اپنے گھروں میں شفٹ ہوجاتے ہیں۔مڑ گائوں   میں لگ بھگ دو لاکھ چالیس ہزار لوگ رہتے ہیں ۔جن کا ذریعہ معاش  مچھلیاں  پکڑنا اور دریا کے تیرتے جزیروں پر اپنے چھوٹے کھیتوں سے چاول، جوٹ اور سبزیوں  کی پیداوار کو  فروخت کرنا شامل تھا۔

واضح رہے کہ مقامی حکومت نے موسمیاتی ایکشن پلان وضع کیاتھا  جس میں موسمی واقعات سے نمٹنے کے لیے  گائیڈ لائن  دی گئی تھی لیکن وفاقی حکومت نے ابھی تک اس کی منظوری نہیں دی۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ریاست کے پاس الگ بجٹ نہیں ہے۔موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے خطے میں بارشوں میں اضافہ نے برہمپترا  میں پانی میں اضافہ ہوگیا تھا  جس کی وجہ سے آس پاس کے گائوں کے رہائشی خطرے میں تھے۔

نئی دہلی میں قائم آب و ہوا، توانائی، ماحولیات اور پانی کی کونسل کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق، بھارت، اور خاص طور پر آسام ریاست کو زیادہ شدید بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلیوں کے لیے دنیا کے سب سے زیادہ خطرے والے خطوں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

مصنف کے بارے میں