۔۔۔۔۔۔نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

۔۔۔۔۔۔نہ کسی کو فکر رفو کی ہے

نگران حکومت کا تصور انتخابات میں غیر جانبداری کی ضمانت کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا لیکن آج تک کسی بھی نگران کو اس کے جانے کے بعد غیر جانبدار تسلیم نہیں کیا گیا۔ البتہ سیاسی پارٹیوں کے لیے نگران حکومت ایک cushion کا کام دیتی ہے کہ ملکی معیشت کے بارے میں سارے غیر مقبول اور عوام دشمن فیصلوں کا کام ان سے لیا جاتا ہے اس میں ان کی اپنی بچت اس امر میں ہوتی ہے کہ یہ جو مرضی فیصلہ کریں یہ تو ایک طرح کی لاٹری نکلنے سے وجود میں آئے ہیں انہوں نے بعد میں کون سا عوام کے سامنے جانا ہوتا ہے یا الیکشن لڑنا ہوتا ہے۔
اس وقت پاکستان کے کوچہ کوچہ قریہ قریہ بجلی کے بلوں کے خلاف احتجاج چل رہا ہے بل جلائے جارہے ہیں گاؤں کی مسجدوں میں اعلانات ہو رہے ہیں کوئی بندہ بل جمع نہ کرائے ایک طرح کی سول نا فرمانی کی صورتحال ہے۔ پاکستان کی معیشت کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اور کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی کہ معیشت اور عوام مہنگائی کے جن شعلوں کی لپیٹ میں ہیں ان کو اس سے کیسے بچایا جائے۔
مگر موجودہ بجلی بحران میں نگران حکومت کا حصہ محض Capacity chargesکی وصولی کی منظوری تک محدود ہے یہ تو گزشتہ 40 سال کی پے در پے نا اہلیوں کا نتیجہ ہے جواب ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ بجلی کا یہ ڈائنوسار ایسا لگتا ہے کہ سب کو نگل جائے گا۔ جب کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا منصوبہ معطل کیا گیا تو پانی سے حاصل ہونے والی سستی بجلی کی جگہ بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت میں پرائیویٹ پاور پروڈیوسرز کا تجربہ شروع ہوا جو آج تک جاری ہے اس میں پانی سے پیدا کر دہ تقریباً مفت بجلی کے بجائے پٹرول اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کا آغاز ہوا۔ اسی وقت پاکستان کی توانائی ضرورت اتنی بڑھ چکی ہے کہ آج اگر کالا باغ ڈیم بن بھی چکا ہوتا تو اس کی پیدا کردہ 3600 میگا واٹ ہمارے لئے ناکافی ہوتے مگر ہم نے تو وہ بھی نہیں کیا۔ دیامر بھاشا ڈیم ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے انکار کے بعد پاکستان نے خود شروع کیا جو 2029 میں مکمل ہوگا اور اس سے 4500 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔
2029 تو ابھی بہت دور ہے تب تک ہمارا شارٹ فال 10 ہزار میگاواٹ سے بھی بڑھ جائے گا مگر پھر بھی جو زندہ رہیں گے انہیں اس سے فائدہ ضرور ہو گا۔
IPPs کے معاہدوں کی شرائط اتنی ظالمانہ ہیں کہ حکمرانوں بشمول پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق، پرویز مشرف، تحریک انصاف ان میں سے کسی نے بھی IPPs کی شرائط سے رو گردانی کرنے کی جرأت نہیں کی مثلاً پہلی شرط یہ تھی کہ ان کو ادائیگی ڈالر میں کرنا تھی جو جاری ہے اب ڈالر جو پرویز مشرف کے دور میں 60 روپے کا تھا آج 325 روپے پر بھی نہیں مل رہا مگر IPPs کے ڈالر پکے ہیں جو حکومت ان کو دینے کی پابند ہے۔
کالم کے شروع میں Capacity charges کا ذکرہے جس کا عوام کو پتہ ہی نہیں ہے کہ یہ کیا بلا ہے یہ ہے کہ اگر IPP کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ایک لاکھ یونٹ ہے مگر سردیوں میں بجلی کی کم کھپت کی وجہ سے 70000 یونٹ خرچ آئے ہیں تو حکومت پابند ہے کہ معاہدے کے مطابق ان کو ایک لاکھ یونٹ کے حساب سے وہ بل بھی ادا کرے جو بجلی استعمال ہی نہیں ہوئی بلکہ پیدا ہی نہیں ہوئی۔ نئی بات یہ ہوئی ہے کہ نگران حکومت نے capacity چارجز عوام کو منتقل کردیئے ہیں جس سے ملک میں آگ لگ گئی ہے۔ لیکن پوری بات یہ ہے کہ یہ چارجز عوام پر ڈالنے کا فیصلہ PDM حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط مانتے ہوئے تسلیم کیا تھا فیصلہ شہباز شریف حکومت کا تھا اس پر عمل درآمد اب شروع ہوا ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ 3 ارب ڈالر کا معاہدہ نومبر تک کا ہے نومبر کے بعد پاکستان کو ڈرگ ایکسپرٹس کی زبان میں نشے کا اگلہ ٹیکہ چاہیے ہو گا جس کے بغیر معیشت زندہ نہیں رہ سکتی نومبر اور فروری کے درمیان بھی 3 ماہ کا فاصلہ ہے۔ نومبر میں نگران حکومت ہی باگ ڈور سنبھال رہی ہے۔ اس وقت عملاً ملک کا معاشی نظام آئی ایم ایف کے چنگل میں بری طرح جکڑا ہوا ہے۔ پوری دنیا کی نظریں پاکستان کے پر لگی ہوئی ہیں کہ ہم کب بریکنگ نیوز بنتے ہیں۔ یہ ایک ایسے ملک کی کہانی ہے جس کے پاس نیوکلیئر پاور بھی ہے اور صرف ریکوڈک کی کانوں میں معدنیات جن میں تانبے اور سونے کی فراوانی ہے ایک اندازے کے مطابق وہاں 6 ٹریلین ڈالر یعنی 600 ارب ڈالر سے زیادہ کا خزانہ بے کار پڑا ہے۔
جس طرح شکار کرنے سے پہلے شیر اپنی کچھار میں آرام کرتا ہے اس وقت سیاسی قیادت اپنے اپنے Comfort zone میں اپنی تھکاوٹ اتار نے میں مصروف ہیں کیونکہ ابھی فروری دور ہے لیکن فروری تک کی کوئی گارنٹی یا یقین دہائی کس کے پاس نہیں۔ بقول فیض
نہ کسی پہ زخم عیاں کوئی نہ کسی کو فکر رفو کی ہے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا نہ نگاہ ہم پہ عدوکی ہے