معاملہ فہمی کی ضرورت ہے

Sofia Bedar, Pakistan, Naibaat newspaper, e-paper, Lahore

قومی سیاست اور حکومتی ڈھانچے کے ستونوں میں جہاں عوامی، عسکری, عدالتی اور معاشرتی تعداد پر ریاستی عمارت اُٹھائی جاتی ہے وہیں مذہبی عنصرکو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ایسا نہیں کہ یہ نیا نیا ملکی سیاست کا حصہ بنا ہے بلکہ پاکستان کے ہونے کا نعرہ ہی اس کا مقصد و غایت بیان کردیتا ہے……
ان تمام ستونوں کی موجودگی سے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا بلکہ ایک متوازن ومتناسب ریاست تشکیل پاتی ہے، ابتدائے آفرینش سے ہی مذہب، سیاست، سپہ سالاری اور حکمت وتعلیم مسجد کے ادارے سے اکٹھا برآمد ہوئی ہیں منبرپر خطبہ حکمران وقت کا تھا تعلیم اور علماء کی بیٹھک بھی وہیں تھی……
بعینہ چرچ بھی تعلیم، مذہب اور حکومت کا گہوارہ رہا دیگر مذاہب میں بھی سیاست مذہب سے الگ کبھی نہ تھی ……تبھی اقبال نے کہا …… جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی دین ہی نے چنگیزی کے بڑھتے ہوئے جنگی جنوں پر لگا میں ڈالیں تمام وقتوں اور زمانوں میں کارخیر کرنے والے دینی عنصر کے ساتھ توڑپھوڑ، شراور مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا قتل جو کہ دوطرفہ اعلان شہادت پر مبنی ہوتا ہے ایک ایسے کنفیوژن کو جنم دے رہا ہے جو کہ حقیقی ریاستوں کی بنیادوں میں عدم رہا…… 
دین کی بنیاد پر اپنے ہی وطن کے اندرتصادم کامطلب ہوا کہ حکومت اورعوامی سوچ میں ٹھن گئی ہے یا تو حکومت عوامی امنگوں کی ترجمانی نہیں یا عوام حکومتی امیدوں پر پورے نہیں اُتررہے اس تصادم کی آگ کو بھڑکانے کیلئے دیگرعوامل جیسے مہنگائی،جرائم اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کافی ہیں،ایک درد جاگتا ہے تو قطاراندر قطار آگ سلگ اٹھتی ہے اور کب کوئی تصادم نپٹ جائے یا بڑی آگ میں تبدیل ہو جائے کہا نہیں جاسکتا ……
”گنجینہئ خیال کہ کھلتا چلا گیا“
ایسا نہ ہو کہ درد بنے درد لادوا
ایسانہ ہو کہ تم بھی مداوا نہ کرسکو
کسی بھی سوشل ایشو کوآسان نہیں لینا چاہیے جبکہ اس کے پیچھے دین کا نعرہ اور آگے بے تحاشا تہہ در تہہ گتھیاں بھی ہوں دلچسپ صورت حال تب پیدا ہوئی جب پنجاب آگ کی طرف بڑھ رہا اور صوبائی حکومت کے نمائندوں کے بجائے وفاقی وزیر آگ بھڑکانے والے بیان جاری کررہے ہیں جن میں فیصل واوڈا کو تو صلح کا بیان بھی دینے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ اس میں بھی احساس برتری سے بھراہوا فاتحانہ بیان دے سکتے ہیں جبکہ شیخ رشید کا پشین گوئی کا شوق استعاراتی باتیں کرنے کی عادت اس متن میں کافی مسئلہ پیدا کرسکتی ہے …… مثلاً انہوں نے جیو کے پروگرام میں فرمایا کہ مجھے تو اس سارے قصہ کے پیچھے کچھ اور نظر آرہا ہے یعنی مسئلہ کچھ اور ہے اور دکھایا اور جارہا ہے ملک کے وزیرداخلہ کے اس بیان کے بعد بے چارے عام عوام کیا رائے قائم کریں وہ خطے جہاں عوامی رائے کو شمار ہی نہیں کیا جاتا اور حکومتی اکابرین بادشاہ کی ہمراہی میں حکومتیں چلارہے ہیں کس قدر پرسکون ہیں یہاں عوام کو چوبیس گھنٹے ایک دوسرے کے کچے چٹھے سنائے جاتے ہیں۔ 
فرانس کے سفیر کو نکالنے کا معاملہ سفیر کی عدم موجودگی میں تسلسل کے مذاکرات میں حل ہو جاتا کہ اب یہ مسئلہ بھڑک کرپوری ایمبیسی اٹھوانے کے مطالبے پر آن ٹھہرا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں بھڑکے ہوئے ہجوم کے آگے اخلاقی جواز تو رکھے جاسکتے ہیں مگر مالی منفعت کے نہیں لوگ اپنے مذہب کے سامنے مالی مفاد کو کبھی بھی ترجیحی بنیادوں پر نہیں لے سکتے……
علماء کی جو ٹیم تحریک لبیک کے کارکنوں سے مل کر وزیراعظم سے ملی ہے نے بھی وفاقی وزراء کے دھواں دھاربیانوں اور وزیراعظم کو سب سے بڑا عاشق رسول ثابت کرنے کے حوالے سے اعتراضات اُٹھائے ہیں  عشق کا دعویٰ تو بڑی بات ہے۔ 
کتھے مہرعلی کتھے تیری ثناء 
گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں 
یہاں تو غلامی کے تقاضے بھی پورے کرنا شاید قبولیت کو نہ پہنچے، یہ ایسا میدان ہے جہاں سوچ سمجھ کر بولنے والے بھی رہ جاتے ہیں امید ہے وزیراعظم پڑھے لکھے عمدہ ترجمانوں کو سامنے لائینگے کہ سیاسی ترجمان اپنی بھید بھری حمایت سے  اور کام خراب کردیتے ہیں۔
ہوئے تم دوست جس کے 
دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
 ہم نے بڑے ایسے ہمراز دیکھے جو پیغام راستے ہی میں بدل دیتے ہیں غالب نے بھی کیا فرما دیا
ذکر اُس پری وش کا
اور پھر بیاں اپنا 
بن گیا رقیب آخر
جو تھا رازداں اپنا 
چوہان اور فردوس عاشق بھی کہنے کو بزدار صاحب کی مددکو آئے تھے مگرواہی تباہی کی مثالیں قائم کردیں اب کے ایوانوں میں پڑھے لکھے لوگوں کی آمد ہوئی ہے تو کچھ فضاء میں تبدیلی کے آثار ہیں مگر کام انتہائی خراب ہو جانے کے بعد سوچا جاتا ہے اور یہ واقعی کوئی انفرادی فعل نہیں ہم سب ایسے ہی ہیں ذراسی مسئلہ پر دھول پڑتی ہے ہم چپ ہو جاتے ہیں ہم سب ذہنی طورپر دیہاڑی دارقسم کے لوگ ہیں کل کے بارے میں سوچنا ہمارا شیوانہیں ……تاہم اب دھرنا اورمارچ وزیرآباد سے بھی آگے نکل گیا توکنٹینروں کے کرائے ترسیلات کی بندش مزید مالی نقصان کا کرایہ تو ہے ہی اصل مسئلہ اس حل کا انتخاب ہے جو خون خرابے کو روک سکے ظاہر ہے طاقت اور عمدہ زبان کا انتخاب ہی حل ہیں آخرالذکر تو مفقود ہے ہی مگر اول الذکر بھی کسی طوفان اٹھانے سے کم نہیں آگے بھارتی فوجیں نہیں کہ ہم سب اسلحہ اُٹھا کر پل پڑیں آگے اپنے ہی گھر سے روٹھے ہوئے بچے ہیں …… ان کو اسلحہ استعمال کرنے  سے بھی روکنا ہے اور خود بھی اجتناب برتنا ہے سرحد پار لڑائی میں ہم سب اکٹھے ہوتے ہیں اور گھر کے اندر کی لڑائی میں ہرشخص تنہا ہوتا ہے ……
اب تیسرے حل کی طرف آتے ہیں ہم سب جانتے ہیں ہمارے مذہبی امور کے قادر صاحب کے علاوہ بھی جید علماء وسیاست دانوں کے کالعدم تحریک سے ذاتی رابطے ہیں اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ایک ہی ملک اور ماحول میں پلنے والے سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں قیام کرنے والے آپس میں بھائی بند ہی ہوتے ہیں نہ وہ کسی اور زمین پر اُگ آئے ہیں اور نہ ہم ان سے الگ کوئی وجود رکھتے ہیں سب کے ڈانڈے کہیں نہ کہیں ملے ہوئے ہیں۔
اس وقت بہت سمجھ دار دینی مشاورت اور علماء کی مدد لینے کا وقت ہے انا اور غصہ دکھانے کا نہیں گولی بندوق کی باتیں کسی اور قوم کو تو ڈراسکتی ہیں مگر پاکستانیوں کو نہیں، ضروری یہ ہے کہ ایک مؤقف ہی کی تسلسل سے بات کی جائے حکومتی رٹ قائم سمجھداری سے ہوتی ہے اندرون خانہ جنگی سے نہیں ……
ہرسطح پر مذاکرات ہونا چاہئیں علاوہ ازیں عندلیب عباس جیسی کچی باتیں کرنے والی کارکن کو اتنے حساس موضوع پر بیان سے روکنا چاہیے جو ایک پروگرام میں فرما رہی تھیں معاہدے تو روز بدل جاتے ہیں معاہدے ہوتے ہی بدلنے کے لیے ہیں وہ تو شاید لاشعوری طورپر یوٹرن کو ڈیفنڈ Defandکررہی ہوں گی مگر بات کہیں زرداری صاحب کے فلسفے میں جاپڑی کہ معاہدے کوئی حدیث نہیں ہوتے اگر آپ معاہدے توڑنا احسن اور وعدے کی حیثیت سے منحرف ہیں بھی تو نہ کہیں کہ یہ ان لوگوں کے ایمان کا حصہ ہے جو ”موت“ کو بھی بہت محبت کے ساتھ ”وعدے کا وقت“ کہہ کر گلے سے لگاتے ہیں۔