لاہور : آج پاکستان کے مزاح اور اداکاری کے بے تاج بادشاہ معین اختر کو ہم سے بچھڑے 14 سال ہو گئے، مگر ان کی یادیں اور فن آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔
معین اختر نے اپنی بے ساختہ مزاح، برجستہ جملوں اور باوقار انداز سے لوگوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیریں۔ چاہے وہ اسٹیج ہو، ٹی وی، فلم یا ریڈیو ہو ، معین اختر نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کے مشہور ڈرامے جیسے آنگن ٹیڑھا، ہاف پلیٹ، روزینہ اور عید ٹرین آج بھی کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔
اسٹیج پر ان کے کامیڈی شوز بکرا قسطوں پر اور بڈھا گھر پر ہے نے جو مقبولیت حاصل کی، وہ آج بھی مداحوں کے دلوں میں تازہ ہیں۔ صرف اداکار ہی نہیں، معین اختر نے بطور کمپیئر، ہدایتکار، پروڈیوسر، مصنف اور گلوکار بھی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
معین اختر 22 اپریل 2011 کو دل کا دورہ پڑنے سے اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے، لیکن ان کا فن، ان کی باتیں، ان کے کردار اور ان کا اندازِ گفتگو آج بھی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل ہو رہا ہے۔
معین اختر کی خدمات کے اعتراف میں انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی اور ستارہ امتیاز سمیت کئی قومی و بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔ ان کے ساتھی فنکار آج بھی مانتے ہیں کہ جس انداز سے معین اختر نے پاکستانی ثقافت کو عالمی سطح پر روشناس کروایا، وہ کام شاید ہی کوئی اور اس قدر خوبصورتی سے کر سکے۔