پنجاب یونیورسٹی کے محقق نے خبر میں پروپیگنڈا مواد کی نشاندہی کرنے کا سائنسی ماڈل ایجاد کر لیا

پنجاب یونیورسٹی کے محقق نے خبر میں پروپیگنڈا مواد کی نشاندہی کرنے کا سائنسی ماڈل ایجاد کر لیا

لاہور: پنجاب یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے محقق خرم شہزاد نے پاکستان کے قومی انگریزی اخبارات کی خبروں میں خفیہ تکنیکوں کے ذریعے شامل کئے گئے پروپیگنڈا مواد کی نشاندہی کرنے کے لئے سائنسی ماڈل ایجاد کر لیا ہے ۔ اس سائنسی ماڈل کا نام ”پراپیگنڈا نیوز آئی ڈینٹی فیکیشن ماڈل“ ہے ۔

 خرم شہزادنے تحقیق کے لئے جنوری 2013 سے دسمبر 2018 تک کے اخبارات کو منتخب کیا ہے ۔ اس دورانیہ میں پاکستان میں دو مرتبہ قومی و صوبائی نشستوں پر عام انتخابات کا انعقاد ہوا ۔  خرم شہزادبیان کرتے ہیں  کہ ماہرین ابلاغیات و صحافت اس بات پر متفق ہیں کہ خبر کو واقعات اور حقائق کا سیدھا سادھا غیر جانبدارانہ بیان ہونا چاہیے جو کہ خبر لکھنے اور شائع کرنے والے کی ذاتی مداخلت سے پاک ہوتی ہے ۔ تمام قومی اخبارات کے مالکان اور مدیر اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی خبریں غیر جانبدار اور حقائق پر مبنی ہوتی ہیں ، تاہم تحقیق سے ثابت ہوا کہ ان کے دعوے کے برعکس اہم خبروں میں مخفی طریقوں کے ذریعے خاص مقصد کے حصول کے لئے پروپیگنڈا مواد شامل کیا جاتا ہے تاکہ عوام کے اذہان کسی معاملے پر کسی خاص جانب گامزن کئے جا سکیں ، پراپیگنڈا کیا جاسکے اور ایک خاص سوچ کو پروان چڑھایا جا سکے ۔  خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ اخبار میں چھپی خبر کے بارے میں لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ایسا واقعتا ہوا ہے اور خبر کسی واقعے یا معاملے کی حقیقت کو بیان کر رہی ہے ۔ اور خبر سے متعلق اسی ذہنی تاثر کا ناجائز فائدہ اٹھا کر اس میں 11 مخفی طریقوں سے ایسا مواد شامل کیا جاتا ہے جو رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکے ۔

ان گیارہ مخفی ذرائع اور تکنیک کی تفصیل بیان کرتے ہوئے محقق کا کہنا ہے کہ مخفی ذریعہ نمبر ایک کے تحت بغیر کسی کاغذ ، دستاویز ، شخصیت ، ادارہ ، فورم وغیرہ کا حوالہ دیتے ہوئے مستقبل کی پیش گوئی کی جاتی ہے ۔ مثال کے طور پر بغیر حوالے کے لکھا ہو گا کہ ”الف“ کے اعمال اور پالیسی کی وجہ سے غریبوں کے حالات بہتر ہوں گے ۔ دوسری مخفی تکنیک میں کسی ڈاکیومنٹ ، شخصیت ، یا تنظیم کا حوالہ دئیے بغیر خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر خبر میں لکھا ہو گا کہ فلاں پالیسی یا عمل سے عوام کے مسائل میں اضافہ ہوگا یا لکھا ہو گا کہ ”الف“ کی فلاں پالیسی یا عمل ”ب“ کے لئے خطرہ ہے ۔ تیسری مخفی تکنیک میں کسی واقعے ، حالات ، خبر یا معاملے پر گمنام ذرائع سے تجزیہ کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر لکھا جائے گا کہ ذرائع نے کہا ہے کہ ”الف“ کے اقدامات سے محکمہ میں انقلاب آ جائے گا ۔ پروپیگنڈہ کرنے کے چوتھے مخفی ذریعہ ، جو کہ خبروں میں سب سے ذیادہ استعمال کیا گیا، اس میں کسی بھی واقعے ، حالات ، معاملات ، حادثات وغیرہ کا بغیر کوئی حوالہ دئیے تجزیہ کرنا ہے ۔ ایسے جملے اچانک خبر میں نمودار ہو جاتے ہیں جو کسی سے منسوب نہیں ہوتے اور انہیں خبر کا اس انداز میں حصہ بنایا جاتا ہے کہ حقیقت معلوم ہوں ۔ مثال کے طور پر بغیر کسی ریفرنس کے لکھا جائے گا کہ ”پ“ کو ”الف“ اور ”ب“ کے مابین جھگڑے کا فائدہ ہو رہا ہے ۔

پانچویں مخفی تکنیک میں کسی خبر سے متعلق جانبدارانہ طور پر منتخب کیا گیا تاریخی پس منظر اور حالیہ صورتحال کو شامل کیا جاتا ہے ۔ مثال کے طور پر عوامی مقامات پر کسی شخص یا چند افراد کی جانب سے قتل عام کئے جانے کی خبر کے دوران اگر تاریخی پس منظر بتانا مقصود ہے تو صرف ایسے واقعات کا حوالہ دینا جس میں صرف مسلمان حملہ آور ہو ۔ اس طرح عوامی رائے کی تشکیل کے لئے جانبدارانہ طور پر منتخب کیا گیا تاریخی پس منظر دیا جاتا ہے ۔ چھٹی مخفی تکنیک میں خبر کے اندر کسی خاص ماہر کا نام یا حوالہ دئیے بغیر ماہرین کی رائے دی جاتی ہے ۔ مثلاَ معیشت ، قانون ، سیاست ، انتظامی امور وغیرہ سے متعلق خبر میں لکھا ہو گا کہ ماہرین ، معاشی ماہرین ، قانونی ماہرین ، سیاسی مبصرین ، ڈپلومیٹک آبزرور وغیرہ وغیرہ کا کہنا ہے اور آگے ان کی رائے دے دی جاتی ہے جبکہ پوری خبر میں کسی ایک بھی ماہر کا باقاعدہ نام درج نہیں ہوتا اور یوں کسی ایک رائے کو اس طرح بیان کیا جاتا ہے جیسے وہ سب کی رائے ہو ۔ ساتویں مخفی تکنیک میں بغیر کوئی حوالہ دیئے کسی شخصیت اور اس شخصیت کے اعمال کا تجزیہ ، تعریفیں یا برائیاں لکھی جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر بغیر حوالہ لکھا جاتا ہے کہ فلاں سیاست دان یا بیورکریٹ یا ٹیکنوکریٹ اس کام کے لئے بہت قابل اور ایماندار ہے ۔ اور اس کی سوچ اور اعمال بتاتے ہیں کہ وہ ایمانداری سے اس شعبے کی ترقی کے لئے کام کرے گا یا کسی کی نا اہلی کسی کے سر ڈال دی جاتی ہے ۔ ایسی خبریں عام طور پر تب چھپتی ہیں جب وزارتوں اور مختلف سرکاری عہدوں پر ردو بدل ، تقرریاں و تبادلے ہوتے ہیں ۔ آٹھویں مخفی تکنیک میں خبر میں تجزیاتی سوال اٹھائے جاتے ہیں یا شکوک و شبہات و تجزیاتی سوالات اٹھا کر خود ہی جواب دے دیا جاتا ہے اور یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ تجزیاتی سوالات کون اٹھا رہا ہے ؟ اس تکنیک کے ذریعے عوام کی سوچ کو ایک خاص سمت ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ نویں مخفی تکنیک میں ایسی بحث درج کی جاتی ہے جس کا کوئی حوالہ نہیں ہوتا کہ یہ بحث کہاں ہوئی ۔ مثال کے طور پر خبر میں لکھا ہو گا سیاسی حلقے ، اسلام آباد کے حلقوں میں وغیرہ وغیرہ یہ بحث کی جا رہی ہے ، ایسا کہا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یعنی ایسی بحث جس کا سراغ لگانا نا ممکن ہو اس کا حوالہ دے کے کچھ بھی لکھ دیا جائے کیا معلوم وہ رپورٹر یا ایڈیٹر وغیرہ کی ذاتی خواہش پر مبنی بات ہو ۔ دسویں مخفی تکنیک میں بغیر کسی ڈاکیومنٹ ، شخصیت ، ادارہ وغیرہ کا حوالہ دئیے کسی معاملے پر مشورے / سفارشات دی جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر لکھا ہو گا کہ ان حالات میں فلاح شخص ، حکومت یا فلاں ادارے کو ایسا کرنا چاہئیے یا ایسا نہیں کرنا چاہئے ۔ گیارہویں مخفی تکنیک میں کسی بھی واقعے پر رائے پر مبنی وجوہات بتائی جاتی ہیں اور ان وجوہات کا منبع خبر میں بیان نہیں کیا جاتا ۔ مثال کے طور پر یہ لکھنا کہ ”الف“ کی کامیابی یا ناکامی کی وجہ ”ب“ ہے اور اس جملے کا منبع درج نہ ہو ۔

خرم شہزادکا کہنا ہے اس ماڈل کے اطلاق سے بین الاقوامی محققین ایڈورڈ ایس ہرمن اور پروفیسر نوم چومسکی کے معروف پروپیگنڈا ماڈل کے پاکستانی قومی اخبارات کی خبروں پہ اطلاق کی سائنسی انداز میں نشاندہی کی جا سکتی ہے ۔ جس کا مقصد پاکستانی عوام کا مختلف معاملات پر ذہن بنانے ، سوچ کو ایک خاص سمت میں لے جانے اور رائے عامہ تشکیل دینے کی کوشش کرنا ہے ۔

مصنف کے بارے میں