احد چیمہ کو روکیں

احد چیمہ کو روکیں

چیمہ صاحب،مجھے آپ کے استعفیٰ دینے کے فیصلے سے سخت اختلاف ہے ،آپ جیسے اچھے،محنتی اورقانون ضابطے کے مطابق کام کرنے والے افسر اگر بیوروکریسی سے الگ ہو جائیں گے تو سسٹم کیسے چلے گا ؟چیمہ صاحب نے جواب میں موجودہ سسٹم ،اسکی خامیوں اور میرٹ پر کام کرنے والے افسروں کے ساتھ نیب اور دوسرے حکومتی اداروں کی طرف سے تضحیک آمیز رویے بارے میں گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ آپ تو میرے کیس کو جانتے ہیں ،میرے ساتھ کیا ہوا،آپ تو ایسا نہ کہیں، سسٹم تو چلتے ہی رہتے ہیں ،میرے پاس واقعی ان کی باتوں کا کوئی جواب نہ تھا۔فواد حسن فواد اور احد خان چیمہ ہماری بیوروکریسی کے دو بہترین اور ویزنری افسر ، شریف حکومت کے سٹار بیوروکریٹ تھے چوبیس گھنٹے کام کرنے والے مشکل سے مشکل ٹاسک سرانجام دینے والے ٹاسک ماسٹر اور گو گیٹر ،ایک وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری تو دوسرے وزیر اعلیٰ پنجاب کے رائٹ ہینڈ افسر ،ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ دونوں کو اچھے کام پر شاباش ملتی انہیں پرائڈ آف پرفارمنس اور دوسرے ایوارڈ دیے جاتے مگر انہیں سزا دی گئی ، اسٹیبلشمنٹ نے انہیں نوز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ کام کرنے کی سزا دی اور باقی بیوروکریٹس کو ایک پیغام دیا کہ اگر کوئی افسر ہماری مرضی کے خلاف اچھا کام کرے گا تو اس کا حال فواد حسن فواد اور احد چیمہ جیسا کیا جائے گا ،انہیں جیلوں میں بند کیا جائے گا ،نیب اور دوسرے تحقیقاتی اداروں کے ذریعے تنگ کیا جائے گا ،انکے خاندانوں کو تنہا کر دیا جائے گا اور وہ وہ جائیدادیں بھی ان کے کھاتوں میں ڈال دی جائیں گی جن سے ان کا تعلق ہی نہیں تا کہ وہ اور ان کے خاندان کسی کو منہ نہ دکھا سکیں۔نیب کے سیلز اور کیمپ جیل کی کال کوٹھریوں میں انہیں عادی مجرموں کی طرح رکھا گیا اور انکی فیملیز ان سے ملاقات کیلئے پہروں انتظار کرتیں۔دونوں افسروں پر دباؤ ڈالا گیا ،وعدہ معاف گواہ بن جائیں اور تو اور ان کے لئے آواز اٹھانے والوں کو بھی دھمکیاں دی گئیں۔موجودہ حکومت نے دونوں افسروں کو کمپنسیٹ کرنے کی کوشش کی ہے مگر افسوس جیل میں انہیں کسی نے پوچھا تک نہیں تھا ،ان کا اپنا جرم تو اچھا کام کرنا تھا سزا تو انہیں شریف حکمرانوں کی دی گئی۔ان کے سروس کیریئر کو داغدار اور ختم کر دیا گیا ،فواد حسن فواد کی سروس کے آخری دو اڑھائی سال جیل میں پورے کرائے گئے اور تو اور اس وقت تک انکی ضمانت نہ ہونے دی گئی جب تک انکی ملازمت کا عرصہ ختم نہ ہو گیا،اسی طرح احد چیمہ کی سروس کا پیک ٹائم جیل میں گزارا گیا۔ 
لگن،حب الوطنی،قواعد کی روشنی میں کام کام اور صرف کام کرنے والے احد چیمہ جیسے اعلیٰ تعلیم و تربیت یافتہ افسر کو اتنا تنگ کیا گیا کہ آج وہ افسر بد دل ہو کر ملازمت چھوڑنے پر آمادہ ہے،احد چیمہ اڑھائی سال سے زائد عرصہ تک نا کردہ گناہ میں پابند سلاسل رہے اور سزا آج بھی بھگت رہے ہیں،نیب اور ایف آئی اے نے سابق دور میں بیوروکریسی کو پل صراط سے گزارا نتیجے میں جو کام کرنا چاہتے تھے انہوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا،احد چیمہ ٹھیک کہتا ہے ، جس افسر نے کام نہیں کرنا کسی کے دبائو میں رہنا ہے یا خوف کی تلوار خود پر لٹکائے رکھنا ہے اسے عہدے پر مسلط رہنے کا کوئی حق نہیں اسے چاہئے کہ ملازمت چھوڑ دے،ایک سرکاری افسر کی تربیت پر حکومت کروڑوںروپے خرچ کرتی ہے،اندرون بیرون ملک تربیتی سیشن کے بعد کہیں ان کو اہم تعیناتی ملتی ہے،مگر ہمارے سیاسی کار پردازوں نے اس جوہر آبدار کی قدر ہی نہ کی،اس تعلیم یافتہ طبقے کوہر دور میں قربانی کا بکرا بنایا گیا،نتیجے میں ایک عرصہ سے حکومتی کام ٹھپ پڑے ہیں فائلوں کے آگے بڑھنے کی رفتار کچھوے سے بھی سست ہے،کوئی افسر بذات خود فیصلہ کرنے کی جرأت نہیں کر رہا،نتیجے میں حکومتی نہیں ریاستی روزمرہ امور بھی ادھورے پڑے ہیں ، احد چیمہ جیسے کچھ اور افسروں نے عزت سادات بچانے کیلئے ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تو اس شعبہ میں ایسا قحط الرجال آئیگا جس کی تلافی ممکن نہ ہو گی۔
 احد چیمہ کی ملک اور پنجاب کیلئے خدمات کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے ان سے استعفیٰ واپس لینے اور اہم عہدہ دینے کا کہا مگر انہوں نے معذرت کر لی،احد چیمہ کے اس نہج پر کئے گئے فیصلہ کے پس پردہ محرکات کو تلاش کر کے ان کا ازالہ کرنا ہو گا،ورنہ ایک ایک کر کے بیوروکریسی کی تسبیح کے دانے بکھر جائیں گے،اہم سوال یہ کہ احد چیمہ کو کس جرم میں طویل عرصہ جیل میں رکھا گیا،الزام ثابت ہونے تک آئین کے مطابق کوئی مجرم نہیں ہوتا،مگر یہاں صرف چند خبروں یا نامعلوم درخواست پر ہی عزت داروں کی پگڑیاں اچھال دی جاتی ہیں،نظام انصاف میں جان ہوتی تو جس تفتیشی محکمہ نے ان کو گرفتار کیا تھا اس کے تفتیش کاروں کو کٹہرے میں لایا جاتا،سوال کیا جاتا کہ ایک شریف النفس قانون کا احترام کرنے اور تمام مدت ملازمت ملک و قوم کو بہتر سے بہترین ڈیلیور کرنے والے ایک نیک نام بیوروکریٹ کو کس جرم میں کس کے کہنے پر پس دیوار زنداں رکھا گیا،یہی خوف بیوروکریسی کے دامن گیر ہے،یہی ننگی تلوار ہے جو ہر سرکاری افسر کے سر پر لٹک رہی ہے،یہی حکومتی رویہ ہے جس کے باعث سرکاری مشینری نے خود کو اپنے فرائض منصبی سے الگ کر لیا،جس کے نتیجے میں ریاستی امور ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں۔
 مجھے یاد ہے سابق وزیر اعظم عمران خا ن بھی خود میدان میں کودے،آرمی چیف نے یقین دہانی کرائی تو بیوروکریسی نے ہمت کر کے کام سنبھالا مگر ڈھاک کے وہی تین پات رہے جس کے باعث خوف کیساتھ بیوروکریسی میں بد دلی بھی پھیل گئی،اس خوف اور بد دلی کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے،بیوروکریسی کا یہ حوصلہ ہے کہ بد ترین حالات کے باوجود ملک اور صوبوں کے انتظامات کو سنبھالے ہوئے ہے۔ہمارے ہاں سرکاری افسروں پر سرکار ہی اعتماد نہیں کرتی،ان کے فیصلوں کو تسلیم نہیں کیا جاتا،ان کی رپورٹس کو غیر مصدقہ قرار دیا جاتا ہے،وزیر ارکان اسمبلی سیاسی حکام سیاہ و سفید کے مالک،ان کے منہ سے نکلی بات حرف آخر اور جن افسروں نے نظام چلانا ہے وہ پابند، زنجیروں میں جکڑے،راستے محدو ہی نہیں مسدود کر دئیے جاتے ہیں اور ڈیمانڈ کی جاتی ہے کہ ڈیلیور کریں،ہاتھ پائوں باندھ کر کہا جاتا ہے کچھ کر کے دکھائو،اسی کا نتیجہ ہے کہ احد چیمہ جیسے افسر جن کے سر پر کچھ کرنے کی دھن سوار ہوتی تھی اب انکی بھی بس ہو گئی ہے،اگر حکومت نے ہوش نہ کی ،احد چیمہ جیسے افسروں کو جانے سے نہ روکا تو ہماری انتظامی مشینری کا شیرازہ بکھر جائے گاپھر کوئی حکومت ڈیلیور کر سکے گی ،امن وامان قابو میں رہے گا نہ مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند کیا جا سکے گا، اور پھر ملک اور عوام کا اللہ ہی حافظ۔

مصنف کے بارے میں