ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا، ڈاکٹر سلیم مظہر کی نظر میں

Riaz ch, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ڈاکٹر محمد سلیم مظہر رقم طراز ہیں کہ میں 1984-86 کے دوران ایم فارسی کا طالب علم تھا تو اس دور میں پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا صدر شعبہ اردو تھے۔ اپنی شگفتہ طبیعت کے پیش نظر وہ نہ صرف شعبہ اردو بلکہ دوسرے شعبہ کے طلباء کے ساتھ بھی بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ ان کا فارسی ادبیات کا مطالعہ، حافظہ اور شعری ذوق بہت عمدہ تھا۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا 23 مارچ 1940ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیاتھا۔ تعلیم لاہور میں ہی حاصل کی بی اے آنرز گورنمنٹ کالج لاہور سے کرنے کے بعد ایم اے (اردو) کی ڈگری 1962ء میں جامعہ پنجاب سے اول درجہ میں حاصل کی۔ 1962ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور اردو لیکچرار تعیناتی ہوئی۔ جولائی 1963ء میں بطور لیکچرار اردو برائے غیر ملکی طلبہ شعبہ اردو (یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور) میں تقرر ہوا۔ 1970ء میں اسسٹنٹ پروفیسر ہوئے۔ 74ء میں اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 1977ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہوئے۔ 1979ء میں بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں اردو زبان کے پروفیسر کے طور پر تدریسی خدمات انجام دیں۔ یہاں ایک سالہ تقرری کے دوران وہ صدر شعبہ اردو اور ڈین فیکلٹی آف لینگویجز کے عہدے پر فائز رہے۔
دورانِ ملازمت اورینٹل کالج، جامعہ پنجاب اور دیگر علمی و ادبی کمیٹیوں کے ارکان بھی رہے۔ یونیورسٹی اورینٹل کالج میں تدریسی اور انتظامی فرائض کی بجا آوری کے ساتھ ساتھ تحقیق و تصنیف میں بھی مشغول رہے۔خواجہ صاحب نے
ایم اے کی سطح پر ایک سو سے زائد طلبہ کی تحقیقی مقالات لکھنے میں رہنمائی کی۔ اس کے علاوہ 20 سے زائد ریسرچ سکالروں نے ان کی زیرِ نگرانی پی ایچ ڈی کے مقالات تحریر کر چکے ہیں۔
ڈاکٹر محمد سلیم خواجہ صاحب سے اپنی ملاقاتوں کا احاطہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کبھی کبھار جب خواجہ صاحب کے مہمان ہوئے تو وہ پاک ٹی ہاؤس یا کسی دوسرے اچھے ریسٹورنٹ میں ساتھ لے جاتے۔ کھانا کھلاتے، چائے، کافی پلاتے اور اکثر خود ہی اپنی کار میں اولڈ کیمپس چھوڑ جاتے۔ اس دور میں ایک بہت سینئر، صاحب علم اور مشفق استاد کا ایک طالب علم سے ایسا شفقت سے لبریز حسن سلوک عالم خواب کی عملی تعبیر سے کم نہیں تھا۔
خواجہ صاحب یونیورسٹی اساتذہ کی عملی سیاست میں بھی سرگرم تھے۔یہ اس وقت بڑی جرأت اور دلیری کا کام تھا جو قطعی بات ہے کہ خواجہ صاحب میں بدرجہ اتم تھی۔جب بھی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے سالانہ انتخابات آتے یا کوئی اور ایسی سرگرمی شروع ہوتی تو کالج میں زیادہ محفلیں جمتیں، کھل کر بحث مباحث ہوتے، اختلاف رائے بھی سامنے آتا۔
ڈاکٹر خواجہ صاحب نہ صرف پاکستان بلکہ چین، جاپان، ترکی، ایران، اور بھارت سمیت مختلف ممالک میں اپنے چاہنے والوں کا ایک ایسا حلقہ رکھتے ہیں جو ان کی علمی و ادبی خدمات کا معترف ہے۔ اپنے تدریسی کیرئیر کے دوران خواجہ صاحب نے کئی ممالک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اردو زبان و ادب کی تعلیم دی۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا بلا شبہ ایک صاحب علم استاد، مستند ماہر محقق، غیر معمولی نقاد، عروض شعر میں خاص مہارت کے حامل اور اردو کے عمدہ شعر کہنے والے شاعر ہیں۔ اگرچہ مؤخر الذکر کام پر انہوں نے زیادہ توجہ ابھی کچھ عرصہ پہلے دینا شروع کی مگر جلد ہی اپنا شعری مجموعہ شائع کیا جسے اہل ادب کے ہاں خوب پذیرائی ملی۔ خواجہ صاحب کو فارسی شعر و نثر فہمی پر بھرپور مہارت حاصل ہے۔ ان کا ذوق شعری شائستہ، ستائش اور حافظہ و لگن قابل رشک ہے۔ انہوں نے اپنی عمر عزیز کا بیشتر حصہ علم و دانش کی سچی خدمت میں گذارا اور یہ کام پوری لگن اور خلوص کے ساتھ جاری ہے۔ ان کا شمار ان ادیبوں اور شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستان سے غیر مشروط، والہانہ اور ہمہ گیر محبت کو اپنا شعار بنا یا اور پورے قدو قامت اور کھرے لہجے میں اس کا پرچار کیا۔
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاکی زندگی کا پہلااور آخری عشق صرف" کتاب" ہی ہے۔وہ کتاب کے بارے میں اپنا مدعا یوں بیان کرتے ہیں "کتاب " میری زندگی ہے۔میں کتاب کے بغیر زندہ رہنے کا تصورنہیں کر سکتا۔میری زندگی میں اہم ترین چیز کوئی ہے تو وہ کتا ب ہے "۔وہ اپنے دور کے نامور اور شہرہ آفاق شعراء اور اکابرین ادب کے بارے میں بتاتے ہیں کہ"،ابن ِانشاء ،احسان دانش، احمد ندیم قاسمی وغیرہ سے ان کی بے پناہ ملاقاتیں رہیں۔جوش ملیح آبادی سے بھی ان کی چار ملاقاتیں ہوئیں۔حفیظ جالندھری کے ایک نثری مجموعے جس کانام "نثرانے" ہے،اس کا انتساب ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کے نام کیا۔اسی طرح ممتاز شاعر احسان دانش نے اپنی آپ بیتی کے دوسرے حصہ "جہان دِگر"میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا کا ذکر خوبصور ت الفاظ میں کیا ہے۔ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاعلم و ادب کا سرمایہ اور اسلاف کی نشانی ہیں۔وہ بذات ِ خود ایک انجمن،ایک عظیم داستان اور ایک دبستان ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ کریم ان کا سایہ ہم پہ تا دیر قائم رکھے۔ انھیں صحت و سلامتی عطا کرے اور وہ اسی طرح علم و ادب کے چراغ روشن کرتے رہیں۔