پی ٹی آئی کے پاس اپیل کا فورم موجود ہے اسے استعمال کریں، اگر ریلیف نہ ملے تو سپریم کورٹ آجائیں: چیف جسٹس فائز عیسیٰ

 پی ٹی آئی کے پاس اپیل کا فورم موجود ہے اسے استعمال کریں، اگر ریلیف نہ ملے تو سپریم کورٹ آجائیں: چیف جسٹس فائز عیسیٰ
سورس: file

اسلام آباد:سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کو لیول پلیئنگ فیلڈ نہ ملنے پر توہین عدالت کیس کی براہ راست سماعت ہو ئی۔ 


چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےسماعت کی۔  جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بنچ میں شامل ہیں۔  وکیل تیمور اسلم، پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ اور شعیب شاہین عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل شعیب شاہین کو دلائل دینے کا کہا تو شعیب شاہین کا کہناتھا کہ سردار لطیف کھوسہ سینئر وکیل ہیں، میں نے ان سے دلائل دینے کی درخواست کی ہے یہ دلائل کا آغاز کریں گے۔ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ کے نام کے ساتھ سردار لکھنے پر برہمی کا اظہار کیا،  وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے شناختی کارڈ پر سردار لکھا ہے اس لیے عدالت میں بھی سردار لکھا گیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ سردار، نواب اور پیر جیسے الفاظ اب لکھنا بند کر دیں،سردار لکھ کر اپنا رتبہ بڑا کرنے کی کوشش نہ کیا کریں۔ 1976ء کے بعد سے سرداری نظام ختم ہو چکا ہے، اب غلامی سے نکل آئیں،  یا تو پاکستان کا آئین چلائیں یا پھر سرداری نظام، آئین پاکستان کے ساتھ اب مذاق کرنا بند کر دیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ کیا آپ نے سپریم کورٹ کے حکم پر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ کی اب درخواست کیا ہے؟ انہوں نے مزید پوچھا کہ یہ توہین عدالت کی درخواست ہے کوئی نیا کیس نہیں، مرکزی کیس 22 دسمبر کو نمٹایا جا چکا ہے۔ 

چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے درخواست میں بہت سارے توہین عدالت کرنے والوں کے نام شامل کر لیے، ہمیں بتایا تو جائے کہ الیکشن کمیشن نے کیا توہین عدالت کی؟ کیا الیکشن کمیشن نے آپ کے بارے کوئی فیصلہ دیا یا صوبائی الیکشن کمیشن کو احکامات دیے؟ جس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہمیں الیکشن کمیشن نے کچھ آرڈر نہیں دیا۔

 جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ نے اتنے لوگوں کو توہین عدالت کیس میں فریق بنایا، آپ بتائیں کس نے کیا توہین کی ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے امیدواروں کی راہ میں رکاوٹ ڈالی گئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ثبوت کیا ہیں ہمیں کچھ دکھائیں، توہین عدالت کیس میں آپ صرف الیکشن کمیشن کو فریق بنا سکتے تھے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کو نوٹس بھیجا وہ کہیں گے ہمارا تعلق نہیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں سی ڈی لایا ہوں اس میں سارے ثبوت ہیں، ہمارے رہنماؤں کو کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرانے دیے گئے، سارے پاکستان نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آپ ہمیں بتائیں آپ ہم سے چاہتے کیا ہیں، اب آپ تقریر نہ شروع کر دیجیے گا، آئینی اور قانونی بات بتائیں ہر کوئی یہاں آ کر سیاسی بیان شروع کر دیتا ہے، آئی جی اور چیف سیکریٹریز کا الیکشن کمیشن سے کیا تعلق ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی ہم یہ توہین عدالت کی درخواست سن کیوں رہے ہیں، اگر آئی جی اور چیف سیکریٹری سے مسئلہ ہے تو ان کے خلاف درخواست دیں، آپ افراد کے خلاف کارروائی چاہتے ہیں یا الیکشن کمیشن کے خلاف؟

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ شفاف انتخابات کرائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بالکل، ہم یہی کہہ رہے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے، آپ آئی جیز اور چیف سیکریٹری کے خلاف توہین عدالت چاہ رہے ہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پی ٹی آئی کے قومی و صوبائی اسمبلیوں سے کتنے کاغذات نامزدگی منظور ہوئے؟ آپ کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا بتا رہے ہیں، منظوری کا بھی تو بتائیں، آپ نے لکھا، سوشل میڈیا کے مطابق اتنے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے، پی ٹی آئی کے پاس امیدواروں کے کاغذات منظور یا مسترد کا ڈیٹا نہیں؟ درخواست میں میجر فیملی لکھا ہے، کیا کوئی میجر انتخابات لڑ رہا ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جن کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے وہ اپیل کر دیں گے، آپ چاہتے ہیں سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کا کردار ادا کرے؟ وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ صرف ایک سیاسی جماعت کے کاغذات نامزدگی مسترد ہو رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مائک آپ کی جانب موڑ دیتے ہیں آپ پی ٹی آئی کی سیاسی تقریر کر لیں، آپ ہر بات کے جواب میں سیاسی جواب دے رہے ہیں، یہ قانون کی عدالت ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہاکہ میں 55 سال سے وکلات کر رہا ہوں مجھے بھی سن لیا جائے، میں زیادہ وقت آپ کا ضائع نہیں کروں گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ وقت ضائع کریں ہم رات تک بیٹھیں ہیں، الیکشن کمیشن نے 26 دسمبر کو آپ کے تحفظات دور کرنے کا آڈر جاری کیا 26 دسمبر کے بعد کہاں کیا ہوا وہ بتائیں۔ آپ توہین عدالت کے سکوپ تک رہیں، یہ بتائیں ہمارے 22 دسمبر کے حکمنامہ پر کہاں عملدرآمد نہیں ہوا، الیکشن کمیشن نے تو 26 دسمبر کو عملدرامد رپورٹ ہمیں بھیج دی، مُجھے تو لگتا ہے کہ پاکستان میں الیکشن ہونے نہیں دیے جا رہے۔

 پی ٹی آئی کے وکیل سردار لطیف کھوسہ کی جانب سے سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کی گئی۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم روز آپ کیلئے نہیں بیٹھ سکتے، آپ کو عملدرآمد رپورٹ مل گئی اس پر جواب دے دیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ ویڈیو لگانے دیں،  میڈیا میں سب کچھ آچکا ہے دنیا نے سب کچھ دیکھا۔ تو اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم، میں میڈیا دیکھتا ہی نہیں۔ لطیف کھوسہ نے کہا کہ صرف کاسمیٹک عملدرآمد نہیں آپ بنیادی حقوق کے محافظ ہیں آپ نے شفاف الیکشن یقینی بنانے ہیں۔

وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے کارکنان جب کاغذات جمع کرانے گئے پولیس نے کمشنر آفس کو سیل کر دیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پھر اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے ہیں، الیکشن کمیشن کی بات کریں۔

 لطیف کھوسہ نے کہا کہ صوبائی الیکشن کمیشن نے خط لکھا جس میں ساری تفصیل بتائی گئی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ صوبائی الیکشن کمیشن کا اس کیس سے کیا واسطہ ہے؟ الیکشن کمیشن میں آپ نے کوئی شکایت درج کرائی ہے؟

پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن میں بہت سے لوگوں نے شکایتیں دائر کی ہیں۔ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن میں جو شکایت درج کرائی وہ دکھائیں۔

لطیف کھوسہ الیکشن کمیشن میں کی گئی شکایت کی کاپی نہ دکھا سکے۔ چیف جسٹس نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں، الیکشن ہو جائے گا آپ پھر شکایتیں درج کرا لینا۔ ابھی بھی وقت ہے، آر او کے فیصلے پر ٹربیونل سے رجوع کر لیں۔ 

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا الیکشن کمیشن سے کوئی موجود ہے؟ جس پر ڈی جی لاء الیکشن کمیشن روسٹرم پر آگئے اور بتایا کہ تحریک انصاف الیکشن کمیشن آئی، ہم نے انہیں سنا اور حکم نامہ جاری کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل کا آخری دن کب ہے؟ جس پر الیکشن کمیشن کے نمائندے نے بتایا کہ آج اپیل کا آخری روز ہے، 10 جنوری تک ٹریبونلز فیصلے کریں گے۔

چیف جسٹس نے پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ سے کہا  آپ کے پاس اپیل کا فورم موجود ہے اسے استعمال کریں، اگر اپیل کے فورم سے ریلیف نہ ملے تو سپریم کورٹ آجائیں۔

لطیف کھوسہ کا کہنا تھا جو کچھ ہو رہا ہے یہ کبھی ملکی تاریخ میں نہیں ہوا، ملک میں بدترین صورتحال پرکوئی آنکھیں کیسے بند کرسکتا ہے؟

بعد ازاں سپریم کورٹ نے آئی جی، چیف سیکرٹری اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے کیس کی سماعت 8 جنوری تک ملتوی کر دی اور کہا کہ الیکشن کمیشن نے الیکشن کمیشن پنجاب کے خط کے جواب میں ہدایات جاری کی تھیں، بتایا جائے کہ الیکشن کمیشن کی ہدایات پرعملدرآمد ہوا یا نہیں؟

تحریک انصاف کی درخواست
پاکستان تحریک انصاف نے 26 دسمبر 2023 کو لیول پلیئنگ فیلڈ کے احکامات پرعملدرآمد نہ ہونے پر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔ 

پی ٹی آئی نے دائر کردہ درخواست میں موقف اپنایا تھا کہ 22 دسمبر کو   سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کی دادرسی کرنے کی ہدایت کی تاہم الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پرعمل درآمد نہیں کیا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ تحریکِ انصاف کے امیدواروں، کارکنوں اور قائدین کی گرفتاری سے روکا جائے، پی ٹی آئی کے امیدواروں، تجویز کنندہ، تائید کنندہ کو انتخابی عمل کے دوران ہراساں کرنے سے روکا جائے۔عام انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کو انتخابی مہم چلانے کے لیے جلسے جلوسوں کی اجازت دی جائے جبکہ تحریکِ انصاف اور ان کے امیدواروں کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر مساوی کوریج دی جائے۔

تحریک انصاف کی جانب سے درخواست چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے دائر کی، جس میں سیکریٹری الیکشن کمیشن، چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز اور آئی جیز کو فریق بنایا گیا تھا۔

مصنف کے بارے میں