پھر خون کا حساب کون لے گا؟

Humayun Saleem, Daily Nai Baat, e-paper, Pakistan, Lahore

صحافتی کیریئر میں اے پی ایس سمیت بہت سے حادثات،بم دھماکوں کی کوریج کرنے کا اتفاق ہوا۔اے پی ایس کے بچوں کے مرنے کی تعداد ایک ایک کر کے بڑھ رہی تھی دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔مون مارکیٹ میں دھماکہ ہوا کوریج کر رہے تھے کہ ایک اور دھماکہ ہو گیا وہاں کھڑے لوگوں کے اعضا بجلی کی تاروں سے لٹکتے دیکھے اسی طرح نیوز روم میں بیٹھ کر بہت سے دھماکے ڈی ایس این جی پر لائیو کور کرائے بہت سے ایسے سین بھی تھے جو دکھانا مشکل تھے۔ہر دوسرے دن دھماکے ہوتے تھے کبھی فوجی شہید ہوتے اور کبھی سویلین خبر آتی تھی کے اسکے پیچھے ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہے اور ساتھ ہی یہ بھی خبر آتی کہ ان کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔
جی ایچ کیو پر حملہ ہوا، مساجد مزارات،امام بارگاہ کچھ بھی محفوط نہ تھا، ایک ایک حملے کا ذکر کرتے ہوئے دل خون کے آنسو روتا ہے۔اے پی ایس پر حملہ کے بعد ایک آپریشن ہوا جسے ضرب عضب کا نام دیا گیا بہت سی جانیں گنوا کر اس آپریشن میں کامیابی حاصل ہوئی قوم سجدہ شکر بجا لائی اور سکھ کا سانس لیا۔پاک فوج نے تو اپنے شہداء کی قربانیوں کو یاد رکھا لیکن بدقسمتی سے ہماری کسی بھی حکومت نے سویلین شہداء کے لئے کچھ نہ کیا آج بھی ان سویلین شہداء کے لواحقین کی نظریں کسی مسیحا کے انتظار میں ہیں۔
آج یہ خبر سن کر میں شش و پنج کا شکار ہوں کہ ہم ٹی ٹی پی کو معافی دینے کا سوچ رہے ہیں وزیراعظم نے کہا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، مذاکرات ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے، امن کیلئے بات چیت پر یقین رکھتے ہیں، نتیجے کا علم نہیں تاہم افغان سر زمین پر مذاکرات ہو رہے ہیں، طالبان ہتھیار ڈالنے پر رضامند ہوجائیں تو انہیں معافی مل سکتی ہے۔وزیر اعظم کہتے ہیں کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے کچھ گروپوں کیساتھ مذاکرات ہورہے ہیں۔ اس موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستانیوں کی قربانی کا ذکر بھی کیااعتراف کیا کہ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں ہم نے بھاری قیمت ادا کی۔اب لوگ یہ سوال بھی اٹھارہے ہیں کہ ستر ہزار سے زائد افراد کے قاتلوں سے مذاکرات کی بات کرنے والے وزیر اعظم کا حال یہ ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کی تقرری پر اپوزیشن سے مذاکرات کو تیار نہیں جو ان پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ٹی ٹی پی کو معافی دینے کا اختیار صرف وزیر اعظم کے پاس ہے۔کیا وزیر اعظم نے یہ بات کرنے سے پہلے ان فوجی اور سویلین شہدا ء کی فیملیز سے رابطہ کیا،کیا قوم کو اعتماد میں لیا،کیا قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیا، ان تمام سوالوں کے جواب یقینا نفی میں ہیں۔وزیر اعظم کی سوچ اچھی ہو گی ہمیں کوئی شک نہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو کہ اس بات پر پھر قوم کے دو حصوں میں تقسیم ہونے سے قبل وزیر اعظم صاحب قوم کو اعتماد میں لے لیں کیونکہ قوم دہشت گردی کی جنگ میں بہت کرب سے گزری اس کا درد محسوس کرنا ہو گا جس کا اظہار کم از کم سوشل میڈیا پر تو بہت ہو رہا ہے۔
سوشل میڈیا صارفین کا ردِ عمل یہ ہے کہ ایک صاحب کہتے ہیں ٹی ٹی پی نے ہر مذہب، مسلک، قومیت اور سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے 70 ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ سابقہ فاٹا کے لوگ سب سے زیادہ ان حملوں سے متاثر ہوئے۔ اْن لوگوں کی بات سننے کے بجائے وزیرِ اعظم اِنھیں معاف کرنا چاہتے ہیں۔
 ٹی ٹی پی نے سینکڑوں بچوں اور بڑوں کو قتل کیا مگر اے پی ایس سانحے کے بعد ٹی ٹی پی کے خلاف ایکشن ہوا۔ تب تک ریاست ہچکچا رہی تھی جو ایک افسوسناک حقیقت ہے۔ کوئی بھی معاہدہ بے فائدہ کوشش ہو گی کیونکہ نظریہ کسی بھی معاہدے پر سبقت لے جائے گا۔
دوسری طرف کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ عمران خان کا یہ فیصلہ درست ہے۔حکومت کو امن کے لئے تمام اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر امریکہ طالبان سے بات چیت کر سکتا ہے تو ہم ٹی ٹی پی سے کیوں نہیں کر سکتے۔ 
 وفاقی وزیرِ اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ ریاست کو ایسے لوگوں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ زندگی کے دھارے میں واپس آ سکیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعظم نے جو اْصول وضع کیے ان پر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں، ہم آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اْن لوگوں کو جو اپنے مخصوص حالات کے پیشِ نظر پاکستان کے راستے سے جدا ہوگئے تھے اْن کو واپس راستے پر لاناچاہتے ہیں تاکہ وہ پاکستان کے ایک عام شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار سکیں۔
دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعتیں وزیر اعظم کے اقدام کے حق میں نظر نہیں آ رہیں ان کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت یا مذاکرات کی ایسی کوئی بھی کوشش دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہلاک ہونے والے ہزاروں پاکستانی افراد کی توہین کے مترادف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ بات چیت کی کوشش ان کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ہزاروں بے گناہ شہریوں، سکیورٹی فورسز کے جوان و افسران اور آرمی پبلک سکول پشاور کے درجنوں معصوم بچوں کی توہین ہے۔
وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ کچھ طالبان گروپ رابطے میں ہیں لیکن جو رابطے میں نہیں ہیں ان کا جو بیان سامنے آیا وہ بھی قابل غور ہے کہتے ہیں کہ 
 کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا کہنا ہے کہ 'معافی غلطی پر مانگی جاتی ہے اور ہم نے کبھی دشمن سے معافی نہیں مانگی۔‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ امن کے لئے ہر کوشش کرنا چاہئے لیکن کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کی خاطر ماضی کو بھلا دیا جاتا ہے لیکن کچھ زخم ایسے ہوتے ہیں جن کا نشان کبھی نہیں جاتا اور ٹی ٹی پی بھی ایسا ہی زخم ہے اگر کسی اچھے مقصد کی خاطر وزیر اعظم صاحب چاہتے ہیں کہ اسے قوم بھلا دے تو پھر قوم کو اعتماد میں لینا ہو گا ان شہیدوں کی فیملیز کو بھی اعتماد میں لینا ہو گا جن کی جانیں اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں۔
یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے ہے کہ 70 ہزار سے زائد  پاکستانیوں کی جان لینے والوں کی معافی کے بعد کیا یہی فارمولا کشمیر پر تو لاگو نہیں ہوگا۔