سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی

 سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، سماعت 9 اکتوبر تک ملتوی
سورس: File

اسلام آباد: سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستوں پر  سماعت   9 اکتوبر تک ملتوی کر دی گئی ہے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں15 رکنی فل کورٹ سماعت  کےلیےکمرہ عدالت نمبر ایک میں سرکاری ٹی وی کے کیمرے لگا ئےگئے ہیں،  سرکاری ٹی وی کارروائی براہ راست نشر کر رہا ہے۔ 

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش ہے سماعت آج مکمل کرلیں،سپریم کورٹ میں پہلے ہی بہت سے کیس زیر التوا ہیں،  سپریم کورٹ ایک ہی کیس لے کر بیٹھے گی تو ٹھیک نہیں۔

 جسٹس نقاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ آج اس قانون کا اثربالخصوص چیف جسٹس اور دو سینئر ججزپرہوگا، اختیارات کوکم نہیں بانٹا جارہا ہے، اس قانون کا اطلاق آئندہ کے چیف جسٹسز پر بھی ہوگا، چیف جسٹس کا اختیار اور پارلیمنٹ کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ججز سمجھتے ہیں پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کا اختیار آمنے سامنے ہے، کچھ ایسانہیں سمجھتے۔

دوران سماعت  درخواست گزار نیاز اللہ نیازی کے وکیل اکرام چوہدری نے سابق وزیراعظم سے متعلق خبر پڑھ کر سنائی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ خبریں نا پڑھیں جن کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں، عدالت کو سیاسی بحث کے لیے استعمال نا کریں، میڈیا موجود ہے وہاں جا کر سیاست کریں، قانونی دلائل دیجیے، یہ دلیل دیں کہ پارلیمنٹ نے کیسے عدلیہ کا حق سلب کیا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کچھ لوگوں کا بھی خیال ہے اس قانون سے سپریم کورٹ اور پارلیمان آمنے سامنے آگئے، میں لفظ جنگ استعمال نہیں کرونگا، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر اب قانون بن چکا ہے، حسبہ بل کبھی قانون بنا ہی نہیں تھا، پارلیمنٹ قانون سازی کر سکتا تھا یا نہیں اس بحث میں نہیں جانا چاہیے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آئین سے متصادم ہے یا نہیں یہ بتائیں۔

قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ عدالت کی آزادی صرف اس کے اپنے لیے ہےکہ اس کا ہرصورت دفاع کرناہے؟ عدالت کی آزادی لوگوں کے لیےنہیں ہے؟ اس بات پر روشنی ڈالیں، اگرکل پارلیمنٹ قانون بناتی ہےکہ بیواؤں کےکیسزکو ترجیح دیں، کیا اس قانون سازی سے عدلیہ کی آزادی متاثرہوگی؟ 

چیف جسٹس نے کہا کہ قانون سازی انصاف دینےکا راستہ ہموار اور دشوارکررہی ہے تویہ بتائیں، جب آپ عدالت کی آزادی کی بات کرتے ہیں توکیا ہماری آزادی خود ہی کافی ہے یا اس کا تعلق کسی اورسے بھی ہے؟ 

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ عدالت جب آئینی ترمیم بھی دیکھ سکتی ہےتوبات ختم ہوگئی،  آپ کی دلیل ہےکہ آئینی ترمیم سے یہ قانون بن جائےتوٹھیک ہے۔  پارلیمنٹ اور عدلیہ الگ الگ آئینی ادارہ ہیں،  اگر آپ نے اپنےمعلومات تک رسائی کے حق کے تحت کارروائی کی درخواست نہیں کی تویہ دلیل مت دیں، آپ نے خود اسپیکرکو خط نہیں لکھا اور چاہتے ہیں پوری سپریم کورٹ بیٹھ کربے بنیاد دلیل سنے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کرنے سے پہلے اس کا مکمل طریقہ کار اپنانا چاہیے تھا جو نہیں اپنایا گیا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انصاف تک رسائی کا حق دینا آئین کی بنیاد ہے، کیا پارلیمنٹ عوام کی بہتری کیلئے ہونے والی قانون سازی کرنے کیلئے بااختیار نہیں؟

وکیل اکرام چودھری نے کہا کہ آرٹیکل 8 کہتا ہے ایمرجنسی میں آئینی شقیں معطل کی جا سکتی ہیں، اس پر محمد علی مظہر نے کہا کہ آئینی شق کا کیا تعلق ہے جب قانون بن چکا؟

بعدازاں درخواست گزار نیاز اللہ نیازی کے وکیل اکرام چودھری نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ باقی دلائل تحریری طور پر جمع کروا دوں گا۔

دوران سماعت  چیف جسٹس  قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ جب مارشل لا لگتے ہیں سب ہتھیارپھینک دیتے ہیں، اس کمرے میں بہت سی تصاویرلگی ہیں جو مارشل لاء آنے پر حلف بھول جاتے ہیں،  پارلیمان کچھ کرےتو سب کو حلف یاد آجاتا ہے، مارشل لا کیخلاف بھی تب درخواستیں لایاکریں، وہاں کیوں نہیں آتے؟

 جسٹس قاضی نے کہا کہ اس عدالت نے کئی بار مارشل لا کی توثیق کی ہے، پارلیمنٹ نےکہا سپریم کورٹ کا اختیاربڑھادیا گیا، پارلیمنٹ کہتی ہےانہوں نے ٹھیک قانون سازی کی، سپریم کورٹ کے 184 تین کےاستعمال سے ماضی میں لوگوں کے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی میں اپیل کاحق ملنے سےآپ کوکیا تکلیف ہے؟  وکیل حسن عرفان نے کہا کہ میرے قانون کی رسائی کا حق متاثر ہوگا،کل کو سماجی و معاشی اثرات  ہوں گے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مفروضوں کی نہیں حقیقت کی زبان جانتا ہوں،مولوی تمیزالدین سے شروع کریں یا نصرت بھٹو سے،  انہوں نے کہا آئین کے ساتھ جو کھلواڑ کرنا چاہو کرو،  پاکستان کے ساتھ کھلواڑ ہونے نہیں دے سکتے، پارلیمنٹ کی قدر کرنا چاہیے۔


چیف جسٹس کاکہنا تھاکہ فرد واحد نے اس ملک کی تباہی کی ہے، فرد واحد میں چاہے مارشل لا ہو یا کوئی بھی،  ہمیں آپس میں فیصلہ کرناہے، ججز سے آپ کو کیا مسئلہ ہے،  ایک چیف جسٹس نے فیصلہ کیا،وہ ٹھیک ہے زیادہ کریں توغلط ہے، یہ قانون ایک شخص کے لیے کیسے ہے، یہ بھی سمجھ نہیں آیا، سب بس پارلیمنٹ پر حملہ کر رہے ہیں، یہ دیکھیں قانون عوام کے لیے بہتر ہے یا نہیں۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق درخواستوں کی سماعت سے قبل فریقین نے سپریم کورٹ میں تحریری جوابات جمع کرا دیے ہیں، اٹارنی جنرل، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) نے ایکٹ کو برقرار رکھنے جب کہ درخواست گزاروں اور پاکستان تحریک انصاف نے اپنے اپنے تحریری جوابات میں ایکٹ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔ 

تحریک انصاف نے اضافی دستاویزات سپریم کورٹ میں جمع کرادیں اور انہیں ریکارڈ کا حصہ بنانے کی استدعا کی ہے۔ 

دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے، پی ڈی ایم حکومت نے سپریم کورٹ کے متوازی نظام قائم کرنے کی کوشش کی۔

سپریم کورٹ رولز 1980 کی موجودگی میں عدالت عظمیٰ سے متعلق قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔

یاد رہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی گزشتہ سماعت بھی براہ راست نشر کی گئی تھی، عدالتی حکم پر جمع کروائے گئے سوالات کے جوابات میں حکومت کا کہنا ہے کہ 8 رکنی بینچ کی جانب سے قانون کا معطل کرنا غیر آئینی تھا، سابق چیف جسٹس نے قانون کو معطل کر کے بینچ تشکیل دیکر فیصلہ دیا۔

سپریم کورٹ کا فل کورٹ بینچ اب تک 1 اور لارجر بینچ اس کیس کی 5 سماعتیں کر چکا ہے، لارجر بینچ 13 اپریل کو پہلی سماعت میں ہی قانون پر حکم امتناع دے چکا ہے، 2 مئی، 8 مئی، یکم جون اور 8 جون کو بھی کیس سماعت کیلئے لگا۔

واضح رہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت ازخود نوٹس، بینچ تشکیل کا اختیار3 سینئر ججز کی کمیٹی کو دیا گیا ہے، کیس سماعت کیلئے مقرر کرنے اور درخواستیں لینے کا اختیار بھی کمیٹی کو دیا گیا ہے، متاثرہ فریق کو ایک ماہ میں اپیل کا حق، وکیل تبدیل کرنے کی اجازت بھی دی گئی ہے، ازخود نوٹس کے مقدمات میں ماضی کے فیصلوں پر بھی اپیل کا حق دیا گیا ہے۔

مصنف کے بارے میں