اچھا نہیں ماتھے پہ شکن ڈال کے رکھنا

Shakeel Amjad Sadiq, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ایک بوڑھا آدمی کانچ کے برتنوں کا بڑا سا ٹوکرا سر پر اٹھائے شہر بیچنے کے لیے جارہا تھا۔ چلتے چلتے اسے ہلکی سی ٹھوکر لگی تو ایک کانچ کا گلاس ٹوکرے سے پھسل کر نیچے گر پڑا اور ٹوٹ گیا۔ بوڑھا آدمی اپنی اسی رفتار سے چلتا رہا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔پیچھے چلنے والے ایک اور راہگیر نے دیکھا تو بھاگ کر بوڑھے کے پاس پہنچا اور کہا:
’’ بابا جی! آپ کو شاید پتہ نہیں چلا، پیچھے آپ کا ایک برتن ٹوکرے سے گر کر ٹوٹ گیا ہے‘‘۔
بوڑھا اپنی رفتار کم کیے بغیر بولا: 
’’ بیٹا مجھے معلوم ہے‘‘۔
راہگیر حیران ہو کر بولا:
’’ بابا جی! آپ کو معلوم ہے تو رکے نہیں ‘‘۔
بوڑھا:’’ بیٹا جو چیز گر کر ٹوٹ گئی اس کے لیے اب رکنا بے کار ہے بالفرض میں اگر رک جاتا، ٹوکرا زمیں پر رکھتا،اس ٹوٹی چیز کو جو اب جڑ نہیں سکتی کو اٹھا کر دیکھتا، افسوس کرتا، پھر ٹوکرا اٹھا کر سر پر رکھتا تو میں اپنا ٹائم بھی خراب کرتا،ٹوکرا رکھنے اور اٹھانے میں کوئی اور نقصان بھی کر لیتا اور شہر میں جو کاروبار کرناتھاافسوس اور تاسف کے باعث وہ بھی خراب کرتا۔بیٹا، میں نے ٹوٹے گلاس کو وہیں چھوڑ کر اپنا بہت کچھ بچا لیا ہے‘‘۔
ہماری زندگی میں کچھ پریشانیاں، غلط فہمیاں، نقصان اور مصیبتیں بالکل اسی ٹوٹے گلاس کی طرح ہوتی ہیں کہ جن کو ہمیں بھول جانا چاہیے، چھوڑ کر آگے بڑھ جانا چاہیے کیوں؟ کیونکہ یہ وہ بوجھ ہوتے ہیں جو آپ کی رفتار کم کر دیتے ہیں 
آپ کی مشقت بڑھا دیتے ہیں آپ کے لیے نئی مصیبتیں اور پریشانیاں گھیر لاتے ہیں آپ سے مسکراہٹ چھین لیتے ہیں۔ آگے بڑھنے کا حوصلہ اور چاہت ختم کر ڈالتے ہیں۔ اس لیے اپنی پریشانیوں، مصیبتوں اور نقصانات کو بھولنا سیکھیں اور آگے بڑھ جائیں۔ کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کمپنی کے CEO بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتہ چلتا ہے ان کا انتقال ہو گیا ہے جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں CEO بنتے ہیں اور نوے سال تک حیات رہتے ہیں۔بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ 1 نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔اس دنیا میں ہر شخص اپنےTime zone کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے اپنے اپنے وقت کے مطابق۔ ان سے حسد مت کیجئے۔ اپنے اپنے Time zone میں رہیں۔ انتظار کیجئے اور اطمینان رکھیے نہ ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔اللہ رب العزت جو کائنات کا سب سے عظیم الشان ہے اس نے ہم سب کو اپنے حساب سے ڈیزائن کیا ہے وہ جانتا ہے کون کتنا بوجھ اٹھا سکتا۔کس کو کس وقت کیا دینا ہے۔ اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجیے اور یقین رکھیے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے وہی بہترین ہے۔ ہر حال میں خوش رہیں سلامت رہیں۔خوشیاں اور آسانیاں تقیسم کرنے کی بھر پور کوشش کریں۔غریبوں کا خیال رکھیں۔ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ان سے ادب سے پیش آئیں۔اخلاقی اقدار کو پروان چڑھائیں۔ یاد رکھیں زندگی بہت کم ہے اور یہ اللہ کی امانت ہے اور آپ سے یہ امانت کسی لمحے بھی واپس لی جا سکتی ہے۔ بقول جدیدکلاسیکل لہجے کے پرشکوہ شاعر رضاء اللہ حیدر 
لمحوں کی ملاقات گِلے سال کے رکھنا
اچھا نہیں ماتھے پہ شکن ڈال کے رکھنا
نازک ہیں، سبک سہل ہیں جذبات ہمارے
یہ آئینہ خانے ذرا سنبھال کے رکھنا
نظروں میں اگرچہ رہے افلاک کی رفعت
اندیشے مگر ذہن میں پاتال کے رکھنا
درویش کی نظریں ہیں پرے سرحدِ ادراک
آنکھوں میں بظاہر مسئلے حال کے رکھنا
توحید بھی ہو، عشق بھی ہو، اثاثہ
سر قدموں میں اصحاب کے اور آل کے رکھنا
اس شوخ کی یادوں میں رضا زندگی کرنا
یوں درد کو بہلانا کبھی ٹال کے رکھنا

مصنف کے بارے میں