تحقیقات کے بغیر ہم کسی پر آڈیو ٹیپ کی ذمہ داری فکس نہیں کرسکتے: ڈی جی آئی بی

تحقیقات کے بغیر ہم کسی پر آڈیو ٹیپ کی ذمہ داری فکس نہیں کرسکتے: ڈی جی آئی بی

اسلام آباد: آڈیو لیکس کیس میں ڈی جی آئی بی اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے اور کہا کہ جب تک تحقیقات نہ ہو ہم کسی پر آڈیو ٹیپ کرنے کی ذمہ داری فکس نہیں کرسکتے آڈیو ٹیپ کرنے کو کنفرم یا تردید نہیں کر ریے تفصیلات چیمبر میں بتا سکتے ہیں ،  ہم ریاست کے دشمنوں پر نظر رکھتے ہیں اس حوالے سے عدالت کو چیمبر میں تفصیل بتا سکتے ہیں۔

جسٹس بابر ستار نے آئندہ سماعت پر چیئرمین پی ٹی اے کو طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ چیئرمین پی ٹی اے کو کہا تھا کہ بیان حلفی جمع کرائیں ، پہلے پی ٹی اے نے کچھ اور جواب دیا اب کچھ اور کہہ رہے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار نے آڈیو لیک کیس میں بشری بی بی اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم الثاقب کی درخواست پر سماعت کی۔پی ٹی اے کی جانب سے وکیل عرفان قادر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

وکیل عرفان قادر نے موقف اپنایا کہ درخواستوں گزاروں کی استدعا کے مطابق یہ درخواست غیر موثر ہو چکی ہے۔بشری بی بی کی درخواست میں پی ٹی اے پارٹی نہیں ہے ، وکیل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین پی ٹی اے بارسلونا ایک کانفرنس گئے ہوئے ہیں۔پی ٹی اے کی جانب سے قانونی رکاوٹ موجود ہے۔

جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ پہلے تو پی ٹی اے نے کہا تھا کوئی لیگل رکاوٹ  موجود نہیں۔پھر تو پی ٹی اے کو پہلے جمع کرایا جواب واپس لے لینا چاہیے؟۔ پی ٹی اے حکام نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے تو ایسا کچھ نہیں کہا تھا۔جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے چیئرمین پی ٹی اے کو کہا تھا کہ بیان حلفی جمع کرائیں۔پہلے پی ٹی اے نے کچھ اور جواب دیا اب کچھ اور کہہ رہے ہیں۔

وکیل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ جس نے بھی پی ٹی اے کی جانب سے کہا وہ بھی میں دیکھ لوں گا۔ہم نے کسی کو اجازت نہیں دی ہوئی اس کا ایک طریقہ کار موجود ہے۔

جسٹس بابر ستار نے پوچھا کہ ٹیلی کام آپریٹرز بتا دیں گے ان کو کہا گیا ہے یا نہیں۔وفاقی حکومت تو کہہ رہی ہے کہ انہوں نے تو آج تک کسی کو اجازت نہیں دی۔وکیل عرفان قادر یہ بھی موقف اپنایا کہ وفاقی حکومت قانون کے مطابق اس کی اجازت دیتی ہے،ان لائسنسز میں قانون کی یہ شقیں کیوں رکھی جاتی ہیں یہ دیکھنا ہے۔پی ٹی اے نے کسی کو ہدایات جاری نہیں کیں ۔وکیل عرفان قادر نے عدالت کو بتایا کہ سرکاری افسران آپ سے گھبرا جاتے ہیں میں عدالت کی معاونت کروں گا۔

درخواست گزار کے وکیل سردار لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ یہ کتنا عجیب جواب ہے کہ سیکشن 19 میں یہ مان رہے ہیں یہ جرم ہے ،یہ پورا پورا دن ٹی وی چینلز پر چلاتے رہے ہیں۔ہم سب کی پرائیویسی خطرے میں ہے۔یہ نہیں ہو سکتا میں کلائنٹ سے بات کر رھا ہوں اس کو کوئی اور بھی سن رہا ہو۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے دیکھنا ہے مستقبل میں اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے ،کیا کوئی فریم ورک ہے کس قانون کے تحت انہوں نے اسٹیٹ کو سہولت فراہم کی ہوئیں ہیں۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے چیئرمین پی ٹی اے کو آئندہ سماعت پر دوبارہ طلب کر لیا۔

وکیل سردار لطیف کھوسہ اعتراف کیا کہ ہماری آڈیو جو لیک ہوئی وہ اوریجنل تھی۔وکیل عرفان قادر نے یہ بھی کہا کہ ڈیجٹیل میڈیا اتنا بڑا سمندر ہے فیس بک یوٹیوب ہماری ایجنسیز کے دائرے اختیار سے باہر ہیں۔مرحوم جج ارشد ملک کی آڈیو بھی لیک ہوئی تھی پھر پنامہ کیس کا فیصلہ آپ کے سامنے ہے ،جسٹس بابر ستار کا ٹیلی کام کمپنی کے وکیل سے مکالمہ کرتے پوچھا اسٹیٹ یہ پوزیشن لے رہی ہے کہ کوئی لیگل اتھارٹی نہیں۔

عدالت نے ٹیلی کام کمپنی کے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ آپ نے بتانا ہے کہ شہریوں کی پرائیویسی محفوظ  ہے یا نہیں؟وکیل ٹیلی کام کمپنیز نے جواب دیا کہ پالیسی ، ایکٹ ، لائسنس کچھ اور کہتے ہیں، جسٹس بابر ستار نے کہا اسٹیٹ کا موقف ہے یہ سب کچھ پرائیویٹ ہو رہا ہے اس میں ہمارا کچھ نہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دنگل عدالت کو بتایا کہ بشری بی بی کے کیس میں متفرق درخواست دائر کی ہے ،یہ از خود نوٹس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے ،جسٹس بابر ستار نے کہا کہ یہ ازخود نوٹس نہیں بلکہ ہمارے سامنے پٹیشن ہے ،ڈی جی آئی بی کو ہم نے اس لئے بلایا ہے کہ یہ سمجھائیں۔یہ بھی کہا کہ آپ کو بار بار موقع دے رہے ہیں جواب دے سکتے ہیں۔

ڈی جی آئی بی فواد اسد اللہ جسٹس بابر ستار کی عدالت میں پیش ہوئے تو  جسٹس بابر ستار نے استفسار کیا کہ ریاست شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کیلئے کیا کر رہی ہے؟کیا ٹیلی کام آپریٹرز فون ٹیپنگ کی اجازت دے رہے ہیں؟جس پر ڈی جی آئی بی نے عدالت کو بتایا کہ ہم کسی پر زمہ داری فکس نہیں کر سکتے جب تک تحقیقات نا ہوں ،آڈیو ٹیپ کرنے کنفرم یا تردید نہیں کر ریے تفصیلات چیمبر میں بتا سکتے ہیں۔ہم اسٹیٹ کے دشمنوں پر نظر رکھتے ہیں اس حوالے سے عدالت کو چیمبر میں تفصیل بتا سکتے ہیں۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کی مزید سماعت 14 مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے مزید دلائل طلب کر لیے۔

مصنف کے بارے میں