گلزار صاحب کے مداحین سے معذرت

Asif Anayat, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ادب، شعور، انسانیت، فن، علم، نیکی، شہرت کی کوئی سرحدیں نہیں ہوا کرتیں۔ کہنے کو تو سمپورن سنگھ گلزار صاحب بھارت کے گیت نگار شاعر ادیب سکرپٹ اور سکرین رائٹر فلم ڈائریکٹر ہیں۔ جو 1934 میں پنجاب پاکستان کے علاقے دینا میں پیدا ہوئے۔ برصغیر میں چلتے لمحے میں کوئی دوسرا رائٹر اور فلم ڈائریکٹر خاص طور پر آرٹ فلم میں ان کا ہم پلہ نہیں۔ جن کا کہنا ہے کہ ہندوستان میرا ملک اور پاکستان دیس ہے۔ حساسیت کے سفیر، ثقافت کے شاعر اور انسانیت کا استعارا ہیں۔ علم اور شعور، اردو ادب کے اعتبار میں ایک جیون میں کئی جیون جتنا کام کر چکے ہیں۔ رب العزت زندگی اور سلامتی عطا فرمائے وہ برصغیر کا ہی نہیں انسانی معاشرت کا اثاثہ ہیں۔ بھارت سے زیادہ پاکستان میں مقبول ہیں۔ اردو فلم کے دیکھنے والے گلزار صاحب کی فلم کے ایک ایک منظر، مکالمے اور شاعری کے ایک ایک شعر کو اپنے ذہن و قلب میں محفوظ کر لیتے ہیں۔ ایسی شہرت پذیرائی اور مثبت پہچان میں نے کسی دوسرے رائٹر کے مقدر میں نہیں دیکھی۔ تہذیب و تمدن انسانی رویوں کے اس شاعر سے ملاقات میری زندگی کی خواہش ہے۔ اگر ادب، مذہب، مسلک کی سرحدیں ہوتیں تو دنیا بھر میں تمام مذاہب کے پیروکار نہ ہوتے۔ شیکسپیئر سمیت دیگر انگریز شاعر، ادیب، ڈرامہ نگار برصغیر میں نہ پڑھے جاتے۔ اردو زبان کی کوئی زیادہ پرانی تاریخ نہیں اس پر اب تک سب سے معتبر حوالہ عظیم نوعمر محقق محترمہ فائزہ بٹ کی کتاب اردو میں لسانی تحقیق ہے۔ جس میں اردو کی شروعات مآخذ کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار اور تہذیبوں کی تاریخ پر بھی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ زبانوں اور بولیوں کے ارتقا کی بات کی گئی ہے۔ محققین کا ایک بہت معزز طبقہ اس زبان کا مآخذ پنجاب لاہور کو قرار دیتا ہے۔ برصغیر کے شعرا اور ادبا کی 90 فیصد تعداد پنجاب میں بسنے والے ہیں، جنہوں نے اردو زبان کے ارتقا میں انمٹ نقوش چھوڑے وہ فارسی میں بھی اتھارٹی اور حوالہ سمجھے جاتے تھے۔ کیا خوبصورت تاریخ اور قدرت کا فیصلہ ہے کہ اردو زبان کے شہرہ آفاق شعراء پنجابی ٹھہرے۔ گویا تہذیب ادب اور ثقافت کے نقیب زیادہ تر پنجابی رائٹر ہی قرار پائے۔ اگر نام لکھنے پہ آؤں تو شاید کالم نہیں صرف نام ہی کی کتابوں میں بھی نہیں سما سکیں۔ میرا مطمع نظر آج گلزار صاحب کی بات کرنا ہے جن کو لوگ غیر موجودگی میں بھی گلزار صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک انتہائی قابل مذمت اور قابل تعزیر روایت در آئی ہے کہ جن کی اپنی ولدیت بھی کنفرم نہیں ہوتی وہ اسلاف اور معروف ہستیوں میں سے کسی کا چناؤ کرتے ہیں اور ان کے متعلق لایعنی بکواس کرتے ہیں تاکہ اُنہیں کوئی جان سکے۔ کئی شعرا نے غالب کا کلام 
ان کا کلام ماننے سے انکار کر دیا مگر اہل دانش نے ان کو انسان ماننے سے ہی انکار کر دیا۔ چند شعر کہہ کر غالب، جالب، فیض، اقبال کے گریبان میں ہاتھ ڈالا جائے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ بونا اپنا قد اونچا اور شناخت حاصل کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے۔ گلزار صاحب نے اپنی تحقیق سے ڈرامہ غالب بنا کر غالب کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ امرتا پریتم کی شاعری پڑھ کر اس کو مزید شناخت عطا کی۔ گلزار صاحب پنجابی اور پنجابیوں میں بھی سکھ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسی برادری نے بہت سے انمول نگینے لوگ پیدا کیے۔ خوشونت سنگھ، دیوان سنگھ جیسے لوگ پیدا کیے۔ میرا قلم نجاست کے ڈر سے آج اس موضوع کی طرف ہمت کر رہا ہے نہ میری تہذیب، ثقافت اور تربیت اجازت دے رہی ہے کہ میں ایک گھناؤنی،گھٹیا حرکت کا ذکر شروع کر سکوں کل ایک دوست نے ایک وٹس ایپ کیا اور ساتھ میسیج بٹ صاحب یہ گلزار صاحب کا نام استعمال کر کے ایک گندی ترین، ولگیرٹی کی نمائندہ شارٹ فلم بنائی گئی ہے۔ اس کو میری درخواست پر دیکھیں۔ میں گوجرانوالہ میں پیدا ہونے والا، پہلوانی کلچر سے شناسا، تعلق پولیس سروس کے خاندان سے خود ایک وکیل ہوں، میرا بڑے بڑے بدمعاش ، بدقماش و بد کردار لوگوں سے ملنا ہوا مگر میں نے کسی تھانہ کچہری میں بھی ایسی گھٹیا، بے ہودہ گفتگو سنی اور نہ دیکھی جیسی اس فلم میں دیکھی اور سنی۔ اگر گلزار صاحب کا نام استعمال نہ ہوا ہوتا تو اللہ کی قسم دوسرا منٹ نہ دیکھتا۔ اس فلم کا ایک ایک منظر، مکالمہ، انداز گفتگو سو سو درے کے برابر تھا۔ شاید کوئی گلزار صاحب کے نام پرفلم بنا کر اپنے اجداد کا تعارف کرا رہا تھا۔ اس فلم میں عصبیت، پنجابیوں کی تحقیر، لاہوریوں کی تذلیل اور پنجاب کی توہین کی گئی ہے۔ ’’ایک شخص کراچی سے آتا ہے جس کو گلزار صاحب کی شاعری ازبر ہے اور ان سے اس قدر متاثر ہے کہ لباس بھی ان جیسا اور ان کی زبان میں گفتگو کرتا ہے۔ وہ دبئی میں لڑکیوں کے طائفے لے کر جاتا ہے۔ لاہور میں اوباش، بدکردار لوگ ہیں، ایک جسم فروش ڈانسر اور خواجہ سرا ہے۔ اس کے مکالمے گندگی پستی کی حدیں پار کرتے ہیں جن کو دہرانا تہذیب اجازت نہیں دیتی۔ جسم فروش عورت سے گلزار صاحب کا فین جو کراچی سے آیا ہے، ایک مکالمے میں کہتا ہے کہ دبئی چلو گی۔ اس لڑکی کا میک اپ کرنے والا خاندانی میک اپ کرنے والا ہے۔ لڑکی ایک منظر اور مکالمے میں کراچی سے آنے والے گلزار صاحب کے مداح سے کہتی ہے کہ میرے والد بھی دینا سے تھے اور اس کی موجودہ رہائش گوالمنڈی بتائی گئی ہے۔ گلزار صاحب کا مداح جو گلزار صاحب کا حلیہ بنائے ہوئے ہے، وہ میک اپ والے سے کہتا ہے کہ مجھے میک اپ کرو۔ اگلے منظر میں وہ عورتوں کے لباس میں ہے اور کراچی سے آیا ہوا یہ شخص دبئی لڑکیاں لیجانے والا علت مشائخ میں مبتلا ہے۔ میک اپ والے سے اپنی علت پوری کرانے کے بعد دوبارہ اپنے لباس میں آتا ہے اور میک اپ کرنے والے کو دھکا دیتا ہے کہ میں اب گلزار ہوں یعنی یہ کراچی سے آیا ہوا اردو سپیکنگ پنجابیوں سے اپنی علت مشائخ کے بعد دوبارہ گلزار صاحب کے حلیے اور ان کی شاعری سے لوگوں اور معاشرت کو دھوکہ دیتا ہے کہ وہ کوئی معتبر آدمی ہے۔ پنجابیوں سے نفرت میں وہ بھول گیا اپنا تعارف مہذب نہیں بلکہ دلال اور علت مشائخ میں مبتلا شخص کے طور پر کرا چکا ہے اور گلزار صاحب کی شاعری اور لباس سے تو متاثر ہے مگر شخصیت سے نہیں۔مجھے حیرت ہے کہ ’’ریاست مدینہ‘‘ کی دعویدار حکومت اور حکمران حکومت مخالف مواد کو فیس بک اور یوٹیوب سے لمحوں میں غائب کر دیتے ہیں اور ریاست مخالف عناصر تو ویسے ہی غائب ہو جاتے ہیں مگر صوبائی عصبیت پھیلانے والے، گندگی پھیلانے والے وطن عزیز کی معاشرت کا یو ٹیوب کے ذریعے چہرہ مسخ کرنے والوں کو کھلی چھٹی دیئے ہوئے ہیں، اس کا تدارک ناگزیر ہے۔
میں نے دکھی دل کے ساتھ نامور شاعر حافظ انجم سعید ایڈووکیٹ سے کہا کہ اس پر کیا بات کروں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے وٹس ایپ کریں۔ فلم دیکھنے کے بعد ان کی سانسیں اکھڑی ہوئیں، ایسے متقی انسان کو میں نے کبھی اتنے غیض و غضب میں نہ دیکھا تھا۔ انہوں نے ادھوری سی باتیں کیں جو کچھ اس طرح تھیں۔ ۔۔ گلزار صاحب۔ پنجابی، پنجابی معاشرت کی توہین۔ صوبائی عصبیت اور اردو سپیکنگ اعلیٰ قوم۔ تھڑے بازی اور ولگیریٹی۔ سکرپٹ رائٹنگ اور ڈائریکشن سے نابلد لوگ۔ اسلامی اقدار کا مزاق۔ ننگاپن۔ ناقابلِ برداشت حد تک گالی گلوچ کی بد تہذیبی۔ اعصاب شکن۔ قابلِ تعزیر۔ ناقابل ضمانت، قابل دست اندازی پولیس۔ اور بہت کچھ لیکن زبان اور تربیت اجازت نہیں دیتی۔۔۔ اور کہا کہ یہ ہم سے برداشت نہیں ہوا تو گلزار صاحب کی موت کے لیے یہ بدتمیزی کافی ہے کہ ایک گندی ترین ذہنیت شارٹ فلم کی صورت ان کے نام پر بیچی جائے جس میں ان کے مداح کا اس قدر قابل نفرت کردار دکھایا جائے۔‘‘ 
بہرحال ادب، معاشرت، ثقافت، شرافت، انسانیت کی تذلیل تو کی گئی مگر حیرت نہیں ہوئی کہ گندگی کی بھی کوئی حد نہیں! گلزار صاحب ہم شرمندہ ہیں کہ آپ کے مداحین کی صورت میں آپ کا نام استعمال کر کے ایک بے نام نے شناخت حاصل کرنے کی کوشش کی۔ میں اس شخص کا نام نہیں لکھوں گا یہ بے نام مرے گا۔ اگر کوئی تعارف پائے گا تو وہ صرف گندگی ہو گا۔ غالبؒ، اقبال، فیض کے قافلے پر بھی بہت بھونکنے والے تھے جو راہوں میں مٹ گئے مگر ان کے فکری قافلے آج بھی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ متعدد افراد دنیا میں ہر وقت موجود ہوتے ہیں کچھ ایک ہی ہوتے ہیں۔ گلزار صاحب بھی ایک ہی ہیں، مداحین سے معذرت!!!

مصنف کے بارے میں