تمباکو مصنوعات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 37 فیصد اضافے کی تجویز 

 تمباکو مصنوعات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 37 فیصد اضافے کی تجویز 

اسلام آباد: سوشل پالیسی ڈویلپمنٹ سینٹر (ایس پی ڈی سی) نے تمباکو کی مصنوعات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی (FED) میں 37 فیصد اضافے کی تجویز دی ہے تاکہ محصولات وصولی میں مزید اضافہ کر کے اس آمدن کو صحت عامہ کے اخراجات پر لگایا جاسکے۔

انسٹیٹیوٹ کے جاری کردہ پالیسی پیپر جو عالمی ادارہ برائے صحت اور سی ٹی ایف کے کے اشتراک سے تیار کیا گیا اس میں کہا گیا ہے کہ FED میں 37 فیصد اضافہ کر کے 757,000 لوگوں کو سگریٹ نوشی چھوڑنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے اس طرح پاکستانی حکومت265,000 شہریوں کی جانیں بچانے کے ساتھ ساتھ 37.7 ارب روپے کی اضافی آمدن بھی حاصل کر سکتا ہے۔یہ تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت اپنے بجٹ کے ایجنڈے کی تیاری کر رہی ہے، جس میں تمباکو پر ٹیکس اصلاحات کے ذریعے صحت عامہ اور معاشی خوشحالی کو ترجیح دی جائے گی۔پاکستان میں سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کا دو مراحل کا نظام ہے۔

 سال 2022-23 میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیاگیا۔ایس پی ڈی سی کا کہنا ہے کہ اگرایف ای ڈی شرح میں اضافہ کا رجحان برقرار نہیں رکھا گیا تو یہ آمدنی اور صحت عامہ کی کوششوں دونوں پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ بین الاقوامی معیارات کے مطابق قیمتوں پر ٹیکس کاشئیر 70 فیصد تک لے جانے کے لیے FED کو مزید ایڈجسٹ کیا جانا چاہیے۔ساتھ ہی ساتھ اکانومی اور پریمیم برانڈز کے لیے بالترتیب FED کا حصہ 54 فیصد یا 154 روپے اور 72.1 فیصد یا 452 روپے تک لے جانے تجویز بھی پالیسی پیپر کا حصہ ہے۔ ٹیکس کی سابقہ ایڈجسٹمنٹ سے تمباکو نوشی کی شرح میں واضح کمی آئی ہے اور حکومت کو مالی فوائد ملے ہیں۔

 رپورٹ کے مطابق جولائی 2023 سے جنوری 2024 تک محصولات وصولی 122 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے اور سال کے آخر تک یہ وصولی 200 ارب روپے سے زائد ہونے کی توقع ہے۔ریونیو اکٹھا کرنے کے علاوہ تمباکو نوشی کی شرح کو کم کرنے اور پاکستان میں تمباکو نوشی سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے صحت پر آنے والے کل اخراجات کے 17.8 فیصد کی ممکنہ طور پر تلافی کرنے میں مدد ملی ہے۔یہ دلیل کہ ایف ای ڈی میں اضافے سے غیر قانونی تجارت میں اضافہ ہو گا، کا جواب دیتے ہوئے ایس پی ڈی سی نے کہا کہ تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دلیل میں تجرباتی حمایت کا فقدان ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ تمباکو کمپنیاں ٹیکس پالیسیوں پر اثر انداز ہونے اور ٹیکس سے بچنے کے لیے پیداواری اعداد و شمار میں ہیرا پھیری کرتی ہیں۔اس کے علاوہ،ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم سے جعل سازی کو کم کرنے، غیر قانونی تجارت کو روکنے کی توقع ہے۔واضح رہے پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں تمباکو نوشی بہت زیادہ ہے۔31.6 ملین بالغ افراد جو کہ بالغ آبادی کے تقریباً 20 فیصد کے برابر ہیں تمباکو نوشی کرتے ہیں۔ تمباکو نوشی سے سالانہ تقریباً 160,000 اموات ہو رہی ہیں جو کہ ہر سال صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات میں ملک کیجی ڈی پی کا 1.4 فیصد سے زائد ہے۔