فوجداری مقدمے میں ضمانت کے بعد نئے جرائم کے اضافے کی آڑ میں ملزم کو دوبارہ گرفتار نہیں کیا جا سکتا، لاہور ہائیکورٹ

 فوجداری مقدمے میں ضمانت کے بعد نئے جرائم کے اضافے کی آڑ میں ملزم کو دوبارہ گرفتار نہیں کیا جا سکتا، لاہور ہائیکورٹ

لاہور: لاہور ہائیکورٹ نے طے کیا ہے کہ فوجداری مقدمے میں ضمانت کے بعد نئے جرائم کے اضافے کی آڑ میں ملزم کو دوبارہ گرفتار نہیں کیا جا سکتا,ایک بار ضمانت ملنے کے بعد تفتیشی ایجنسی ملزم کو ضمانت کی منسوخی کے بغیر گرفتار نہیں کر سکتی. 

عدالت  نے کہا یہ معاملہ بنیادی حقوق، خاص طور پر زندگی اور آزادی کے حق کی خلاف ورزی کے گرد گھومتا ہے،ایک بار ضمانت ملنے کے بعد تفتیشی ایجنسی ملزم کو ضمانت کی منسوخی کے بغیر گرفتار نہیں کر سکتی،پولیس کو محض نئے جرائم کا اضافہ کر کے گرفتاری کی اجازت دینا لا محدود اختیار دینے کے مترادف ہے۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی ضیاء باجوہ نے یہ قانونی نکتہ حبس بے جا کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے طے کیا۔

شہری مجتبیٰ سلیم بٹ نے آپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ درخواست گزار کا موقف تھا کہ اس کے بیٹے راشد کو اینٹی وہیکل لفٹنگ سٹاف مصطفی ٹاؤن نے ضمانت پر ہونے کے باوجود گرفتار کر لیا ہے۔

سب انسپکٹر افضل کا کہنا تھا کہ راشد بٹ کے خلاف تھانہ شیراکوٹ میں دفعہ 381-A کا مقدمہ درج ہے۔ سیشن عدالت نے اس کی ضمانت منظور کر رکھی ہے لیکن اب اس کے خلاف نئے جرائم کا اضافہ ہو چکا ہے. مقدمے میں نئے جرائم کے اضافے کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا.

عدالت نے قرار دیا کہ یہ معاملہ بنیادی حقوق، خاص طور پر زندگی اور آزادی کے حق کی خلاف ورزی کے گرد گھومتا ہے۔  یہ ایک ایسی نظیر قائم کرتا ہے جو طاقت کے بے تحاشا غلط استعمال کا باعث بن سکتا ہے۔اس طرح افراد کو ان کے خلاف نئے جرائم کا اضافہ کرنے کے سادہ آلے کے ذریعے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ تفتیشی ایجنسی میں ایسی بے لگام صوابدید کا امکان قانون کی حکمرانی کے اصولوں کے خلاف ہے۔ 


 عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس طریقہ کار سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عدالتی احکامات کو ناکام بنانے کا ڈی فیکٹو لائسنس مل جائے گا۔ عدالت کا فرض ہے کہ وہ ایسے طرز عمل کی سخت مخالفت کرے جو شہریوں کی آزادی کو نقصان پہنچائے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ ریاست اور اس کے ادارے غیر قانونی کسی فرد کی زندگی یا آزادی سلب نہ کریں.  


کسی بھی فرد کو اس کی آزادی سے محروم کرتے وقت قانونی دفعات پر سختی سے عمل کرنا چاہیے. زندگی اور آزادی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہونے کو یقینی بنایا جائے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ ضمانت کے باوجود مغوی کی گرفتاری عدالتی اختیار کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے. جبکہ ایسے ملزم کی آزادی کی حفاظت کی جانی چاہیے جسے ضمانت کا اہل سمجھا گیا ہو۔ ضمانت منسوخ کروائے بغیر ملزم کو دوبارہ گرفتار نہ کرنا ہی عدالتی فیصلے کا احترام ہے۔ ضمانت کے مقدمات میں یہ اصول انصاف پسندی اور انفرادی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے۔ایک بار ضمانت ہونا آزادی کے حق کو تسلیم کرنا ہے جسے عدالتی نگرانی کے بغیر مجروح نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ نقطہ نظر طاقت کے صوابدیدی استعمال کے خلاف تحفظ میں عدلیہ کے کردار کی تصدیق کرتا ہے۔ افراد کی آزادیوں کو ذلیل و رسوا نہ کیا جائے, یہی انصاف کا بنیادی تقاضا ہے.  

عدالتی حکم پر ڈی آئی جی، او سی یو، ملک لیاقت اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔

 ڈی آئی جی نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ معاملے کی انکوائری کر کے ذمے دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔

پولیس حکام کی یقین دہانی پر عدالت نے ملزم کی گرفتاری غیر قانونی قرار دیتے ہوئے درخواست نمٹا دی۔

مصنف کے بارے میں