انٹرنیشنل سطح پر جمہوریت کی جگہ ڈکٹیٹرشپ کا راج

انٹرنیشنل سطح پر جمہوریت کی جگہ ڈکٹیٹرشپ کا راج

ہم سب یہ مانتے ہیں کہ جمہوریت ایک اچھا انتظامی ڈھانچہ ہے۔ جمہوریت کو شاندار سیاسی وٹامن کہنے کی ابتداء یورپ، امریکہ اور غیرمسلم ممالک سے ہوئی۔ تاہم گزشتہ تقریباً آٹھ دہائیوں یعنی دوسری جنگ عظیم کے بعد سے سیاست کا یہ ٹونک ایشیا، افریقہ، مشرق وسطیٰ، مشرق بعید سمیت خلیجی اور عرب ممالک تک پھیل گیا۔ یورپ، امریکہ اور غیرمسلم ممالک کی اِس سیاسی طب کی کتاب میں بتایا گیا کہ ڈکٹیٹرشپ کے مقابلے میں جمہوریت انسانوں کا احترام زیادہ کرتی ہے، اظہار رائے کی زیادہ آزادی دیتی ہے اور اپنی پسند کے حکمران منتخب کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ انسانیت اور اظہار رائے کو عروج دینے کے اِس فلسفے کے تین ممالک سب سے بڑے چمپئن ہیں۔ یعنی یہ تین ممالک دنیا کی عظیم جمہوری حکومتیں کہلاتے ہیں۔ اِن میں برطانیہ، امریکہ اور ہندوستان شامل ہیں۔ دنیا کو جمہوریت کے چرسی نشے کے پیچھے لگاکر خود تین بڑی جمہوریتیں بن بیٹھ جانے والوں سے معاملے کے راز کی تہہ تک پہنچنے کے لیے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ کیا جمہوریت صرف ملکی حدود کے اندر ہی ہونی چاہئے؟ یا اگر تمام ممالک سے مل کر ایک انٹرنیشنل برادری تشکیل پاتی ہے تو کیا اِس انٹرنیشنل برادری کو بھی جمہوری سائبان کا ٹھنڈا سایہ ملنا ضروری ہے یا نہیں؟ اگر اِن تین جمہوری بادشاہوں سے کہا جائے کہ انٹرنیشنل برادری میں بھی جمہوریت کا بول بالا ہونا چاہئے تو پھر انہیں اِس بات کا خود ہی جواب دینا پڑے گا کہ انٹرنیشنل سطح پر یہ تینوں ممالک کس حد تک انسانیت اور اظہار رائے کا احترام کرتے ہیں؟ امریکہ اور اُس کے اٹوٹ انگ برطانیہ کی بات ذرا دور کے ممالک کی بات ہوگی جنہوں نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے انسانیت اور اظہار رائے کو مختلف جگہوں پر مختلف اوقات میں بارود اور آگ میں جلائے رکھنے کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے مگر تخت جمہوریت کے تیسرے بڑے فرماں روا بھارت کے جمہوری حسن کا جلوا اس لیے ضروری ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہی رہتا ہے۔ ہمسائے کے کرتوت ایک ہمسایہ جتنا بہتر جان سکتا ہے اُتنا دور کا رہنے والا نہیں جان سکتا۔ لہٰذا 
ہمیں بھارت کی ہمسائیگی کے شرف سے اُس کے جمہوری روپ کو قریب سے دیکھنے کا موقع نصیب ہوا ہے۔ اِس روپ کو سمجھنے کے لیے ایک دیسی کہاوت پڑھتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک گائوں میں ساس بہو کا جھگڑا چلتا رہتا تھا۔ ساس بہو کو اکثر طعنے دیتی کہ اُس کے چہرے پر روپ نہیں ہے۔ روز روز کے جھگڑے کے حل کے لیے بہو کی سہیلی نے کچھ جڑی بوٹیاں لاکر بہو کو دیں اور کہا کہ انہیں پیس کر توے پر گرم کرکے چہرے پر لیپ کرنے کے بعد سو جائو، صبح تک تمہارے چہرے پر روپ ہی روپ ہوگا۔ رات ہوتے ہی بہو نے یہ عمل شروع کردیا اور جڑی بوٹیوں کو پیس کر توے پر گرم کیا۔ اُس نے کچھ دیر تک توے کو ٹھنڈا ہونے کے لیے چھوڑ دیا اور دوسرے کام نمٹانے کے لیے باہر چلی گئی۔ اِس دوران ساس باورچی خانے میں آئی تو اُس نے دیکھا کہ توے پر بیکار برادہ سا پڑا ہوا ہے۔ اُس نے اِسے بہو کی نااہلی سمجھا اور بڑبڑاتے ہوئے توے کو صاف کرنے کے بعد وہیں الٹا کرکے رکھ دیا۔ اس کے بعد وہ بتی بند کرکے چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد بہو باورچی خانے میں آئی تو اُس نے اِس خوف سے بتی نہ جلائی کہ کہیں ساس کو پتا نہ چل جائے۔ بہو کو توے کی جگہ کا اندازہ تھا۔ لہٰذا اُس نے اندھیرے میں وہیں جاکر توے کی سطح پر اچھی طرح اپنے ہاتھ رگڑے اور اُس پر لگے تمام مواد کو اپنے چہرے پر لیپ کرلیا۔ اُسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ توا الٹا رکھا ہوا ہے اور چولہے کی تمام کالک اُس کے ہاتھوں کو لگ چکی ہے جسے وہ جڑی بوٹیوں کا نسخہ سمجھ رہی ہے۔ بہو اپنا ٹوٹکا مکمل کرکے اطمینان سے سوگئی۔ وہ جب صبح اٹھی تو بڑی اتراتی ہوئی ساس کے سامنے گئی اور بولی کہ دیکھو آج میرے چہرے پر کتنا روپ چڑھا ہے۔ ساس اُسے دم بخود دیکھنے لگی۔ پھر بولی اگر روپ کالے رنگ کا ہے تو بہت زیادہ چڑھا ہے۔ بھارتی جمہوریت کے روپ کی ایک جھلک آسام، ناگالینڈ، تری پورہ، میزورام، نکسل مائو، تامل، خالصتان اور مقبوضہ کشمیر میں دیکھی جاسکتی ہے۔ اگر جمہوری روپ کا رنگ کالا ہے تو بھارت نے اپنے چہرے پر کالک دل کھول کر مل لی ہے۔ بھارت سے جان چھڑا کر آزادی حاصل کرنے کی خواہش رکھنے والی یہ آٹھ ریاستیں بھارت کے اندر کی جمہوریت کے ریپ کا کھلا نظارہ ہیں۔ تقریباً دو دہائیوں بعد سکھوں کی آزادی کی تحریک خالصتان موومنٹ بھارت سے باہر پوری دنیا میں جتنی متحرک ہوچکی ہے وہ اِس سے پہلے کبھی نہ تھی۔ خالصتان موومنٹ کا یہ لاوا آئندہ چند برس میں بھارت کے لیے فرعون کے گھر موسیٰ ثابت ہوسکتا ہے۔ بھارت کی حکومت اِن آٹھ آزادی کی تحریکوں کا غصہ فی الحال صرف کشمیریوں پر ہی نکال رہی ہے۔ وہ کشمیری جنہوں نے آج تک اپنے آپ کو بھارتی نہیں کہا انہیں بھارتی حکومت زبردستی بھارتی طوق پہنانے کے درپے ہے۔ وہ بھارت جس نے 1948ء میں کشمیریوں کی اظہار رائے کو فوجی گولیوں سے لہولہان کردیا وہی بھارت دنیائے جمہوریت کے تخت کا تیسرا بڑا فرماں روا ہے۔ وہ بھارت جس نے 1965ء میں کشمیریوں کے دل میں اظہار رائے کی تڑپ کو پاک بھارت جنگ میں بدل دیا وہی بھارت دنیائے جمہوریت کے تخت کا تیسرا بڑا فرماں روا ہے۔ وہ بھارت جس نے کشمیریوں کی آزادی کو اپنے پنجوں میں دبوچنے کے لیے سیاچن میں دنیا کا بلند ترین برفانی محاذ کھول دیا وہی بھارت دنیائے جمہوریت کے تخت کا تیسرا بڑا فرماںروا ہے۔ وہ بھارت جو 74 برس سے کشمیری بوڑھوں، کشمیری عورتوں، کشمیری نوجوانوں، کشمیری لڑکوں، کشمیری لڑکیوں اور کشمیری بچوں کا خون پی پی کر اپنے چہرے پر بدترین لعنت کی کالک مل چکا ہے وہی بھارت دنیائے جمہوریت کے تخت کا تیسرا بڑا فرماں روا ہے۔ وہ بھارت جو کشمیریوں کی آزادی دبا رہا ہے، امریکہ اور برطانیہ اُس کے داشتہ جیسے نخرے اٹھاتے ہیں اور طاقت کے انجکشن لگاتے ہیں وہی بھارت دنیائے جمہوریت کے تخت کا تیسرا بڑا فرماں روا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اقوام عالم کو جمہوریت کی شراب پلانے والے یہ بتائیں کہ کیا جمہوریت ملکوں کے اندر تک ہی محدود رہنی چاہئے اور انٹرنیشنل برادری کو ڈکٹیٹرشپ کے تحت چلنا چاہئے؟ کیونکہ ساڑھے سات دہائیوں سے کشمیریوں کی آزادی کے مسلسل قتل عام کے بعد بھی جمہوریت کے عالمی طوطے بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتے ہیں۔