نئی تاریخ جنم لے رہی ہے؟

نئی تاریخ جنم لے رہی ہے؟

پاکستان کی تاریخ، ایک نہیں کئی موڑلے رہی ہے ویسے کچھ موڑ تولئے بھی جاچکے ہیں اور انکے نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں 9 مئی کے واقعات کسی طور بھی سانحہ مشرقی پاکستان سے کم نہیں ہیں ایک سیاسی کھلنڈرے نے ریاست کے خلاف بغاوت کی۔ منصوبہ بندی کے ساتھ سوچ و بچار کے ساتھ، اس نے نہ صرف اپنے ماننے و چاہنے والوں کو ساتھ ملایا۔ انہیں تحریک دی۔ نفرت انگیزی کی۔ اسے منصوبہ سازی میں اندر سے بھی امداد حاصل تھی معلوماتی تنظیمی اور دیگر امور پر اسے باوسیلہ افراد کی مکمل سپورٹ حاصل تھی وہ پوری قوت کے ساتھ، ریاست سے ٹکرایا، اسے للکارا، اس پر حملہ آور ہوا۔ پورے ملک میں ایک بغاوت کا ماحول پیدا ہوا۔ لیکن ریاست نے بالغ النظری اور سنجیدہ فکری کا مظاہرہ کیا۔ بپھرے اور بھٹکے ہو ئے جتھوں سے جوابی طور پر ٹکرانے سے اجتناب کیا سوچی سمجھ سکیم کے تحت طاقت کا استعمال نہیں کیا۔ جوابی خون ریزی سے مکمل طور پر اجتناب کیا جس کے باعث بغاوت اپنے انجام تک نہ پہنچ سکی۔ لاشوں کی سیاست کا منصوبہ نا کام ہو گیا، عمران خان اور انکی جماعت مکافات عمل کا شکار ہو چکی ہے۔ ریاستی ادارے عدلیہ اور میڈیا ریاست کے خلاف اٹھنے والے ہاتھوں کو توڑنے میں مصروف ہیں۔ سائفر کیس اور توشہ خانہ کیس میں بھی عمران خان کو سزا ہو چکی ہے۔ عمران خان انکی زوجہ اور شاہ محمود قریشی سزا یافتہ ہوچکے ہیں 9 مئی کے ملزمان کو بھی کٹہرے میں لایا جارہا ہے تاریخ موڑلے چکی ہے مورخ تاریخ لکھ رہا ہے الیکشن 2024ء سر پر کھڑے ہیں 8 فروری آنے ہی والا ہے قوم ایک بار پھر اپنے نمائندوں کو منتخب کرنے جارہی ہے چھوٹی بڑی، قومی، علاقائی اور دینی جماعتیں اپنے اپنے انداز میں، ووٹروں کو لبھانے کی کاوشیں کررہی ہیں اپنا اپنا منشور پیش کر رہی ہیں۔

اور اس وقت پیپلز پارٹی مسلم لیگ نواز مسلم لیگ ق اورجماعت اسلامی جیسی ملک گیر یا بڑی جماعتیں میدان میں نظر آرہی ہیں پاکستان تحریک انصاف مکافات عمل کے شکنجے میں آجانے کے باوجود انتخابی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے اس جماعت کی صف اول و دوم کی قیادت مکافات عمل کے باعث یا تو جیلوں میں ہے یا گرفتاریوں کے خوف سے روپوش ہے لیکن پی ٹی آئی مکمل طور پراپنے پورے قد کاٹھ کے ساتھ انتخابی عمل میں شریک ہے عمران خان کے نامزد کردہ امیدواران آزادحیثیت میں انتخاب لڑ رہے ہیں تحریک انصاف کے طنطنے اور مار دھاڑ کے انداز میں کسی قسم کی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی ہے وہ ویسے ہی جھوٹ مکر اور تشدد کی سیاست میں مصروف ہیں ایک طرف عمران خان اور انکے ہمنوا، سارے نظام کے خلاف باتیں کرتے ہیں دوسری طرف وہ انتخابی عمل میں شریک ہو کر اسی نظام کا حصہ بھی رہنا چاہتے ہیں۔ ویسے عمران خان نے اپنے 44 ماہی دور حکمرانی میں نظام سیاست اور ریاست کے ساتھ جو کھلواڑ کیا وہ بھی اپنا نوعیت کی ایک منفرد مثال ہے جب نظام نے اسکے قاعدے کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ان سے حکومت چھین لی تو انہوں نے بجائے اپنی بقیہ پارلیمانی طاقت کے ساتھ کھڑے رہنے کے بجائے اپنی دوصوبوں میں حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے کی پالیسی اپنائی حالانکہ وہ صوبوں میں برسر اقتدار رہ کربھی پارلیمانی سیاست میں اپنا آپ منوا سکتے تھے لیکن انہوں نے سیاست کے بجائے حماقت سے اپنے آپ کو مزید کمزور کیا اور پھر اپنی طاقت کے نشے میں وہ ریاست سے ٹکرائے اور اپنی پارٹی کا بھی ستیا ناس کردیا۔

8 مئی 2024 کے انتخابات ملکی سیاست کو ہی نہیں بلکہ معیشت کو بھی نیا رنگ اور آہنگ دینے جا رہے ہیں۔ تاریخ ایک نیا موڑ لے گی۔ ملک جس بد حالی اور نا امیدی کا شکار ہو چکا ہے، دہشت گردی ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے۔ قومی معیشت کے بارے میں کیا کہیں عام آدمی کی معیشت کا دھڑن تخت ہو چکا ہے بجلی گیس پٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے ساتھ ساتھہ اشیاء ضروریہ کی قیمتیں کسی کے قابومیں نہیں ہیں۔ مہنگائی عام ہے قدر زراس قدر پست ہو چکی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ ذرائع آمدن محدود ہو چکے ہیں سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث روزگار کے مواقع بھی نہیں ہیں، اور سب سے اہم بات عوام کی بے یقینی اور نا امیدی ہے حالات کا برا ہونا یابد تر ہونا ایک طرف لیکن عوام کا مایوس ہونا ایک انتہائی سنجیدہ عمل ہے دوسری جنگ عظیم میں جب اڈولف ہٹلر نے برطانیہ عظمیٰ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، برطانیہ مکمل شکست کے دہانے تک جا پہنچا تھا ایسے و قت میں ونسٹنٹ چرچل کی قیادت نے قوم کو امید دلائی، فکری طور پر منظم کیا اور پھر جنگ کا پانسا پلٹا۔ ہمارے ہاں تو عامتہ الناس حالات سے مکمل طور پر مایوس نظر آتے ہیں۔

الیکشن 2024، امید کی ایک موہوم سی کرن ہیں کہاجا رہا ہے کہ حالات بدلیں گے ماہر اور جغادری سیاستدان میدان عمل میں ہیں عوام کو تبدیلی کا یقین دلا رہے ہیں کوئی 300 یونٹ مفت دینے کا لالچ دے رہا ہے کوئی لیپ ٹاپ دکھا رہا ہے کوئی تنخواہیں دگنی کرنے کا سہانا خواب دکھا رہا ہے جماعت اسلامی اپنے ہی رنگ ڈھنگ میں الیکشن مہم چلا رہی ہے۔مجموعی طور پر تا ثربن گیا ہے کہ 8 فروری کے بعد حالات شایدپلٹا کھانے لگیں عوامی مشکلات میں کمی ہونے لگے، مہنگائی میں کمی واقع ہو جائے معیشت کا پہیہ چلنے لگے۔ سرمایہ کاری ہونے لگے وغیرہ وغیرہ۔ یہ ایک تاثرہے مثبت تا ثر کے عوام اس تاثر کو حقیقت کے رنگ میں دیکھنے کے لئے 8 فروری کو دیکھ رہے ہیں۔ شاید امید کا سورج طلوع ہو جائے نئی تاریخ رقم ہو جائے۔ اللہ کرے۔