پی ٹی آئی کی عید ِاُداس!

 پی ٹی آئی کی عید ِاُداس!

عیدکے حوالے سے میں شاید پہلے بھی لکھ چکا ہوں، ایک زمانہ تھا اور یہ ہمارے بچپن کا زمانہ تھا، جب چھٹی کا دن عید کے دن کی طرح گزرتا تھا، اب عید کا دِن چھٹی کے دن کی طرح گزرجاتا ہے۔ جس طرح ہم نے اچھا زمانہ کھودیا اُسی طرح ہم اچھی عید کے لطف سے بھی محروم ہوگئے، اب جس طرح کے ہم روزے رکھتے ہیں، اُسی طرح کی عید منا تے، شکر ہے کورونا سے کسی حدتک ہماری جان چُھوٹ گئی، پچھلے برس جو حالات تھے یوں محسوس ہوتا تھا عید کے روز ’’جپھی ‘‘ ڈالنے کی روایت سے ہم شاید مستقل طورپر محروم ہو جائیں گے، ’’جپھی‘‘ سے مجھے اپنی فردوس عاش اعوان یاد آگئیں، جب سے پی ٹی آئی نے اُنہیں فارغ کیا وہ منظر سے بالکل غائب ہوگئی ہیں، خان صاحب کے دفاع میں اُن کے مخالفین کے لیے جس طرح کی وہ زبان استعمال کرتی تھیں، جس طرح کی وہ ’’مُکابازی‘‘ کرتی تھیں، میں اکثر سوچتا تھا وہ عمران خان کے معیار پرہمیشہ پوری اُترتی رہیں گی، مگر پھر بیچ میں شہباز گل آگئے ، وہ گال سازی کی پوری ایک انڈسٹری ہیں، پھر فردوس عاشق اعوان کی چُھٹی ہوگئی۔ آج اُس بے چاری کا نام ونشان تک نہیں وہ کہاں ہیں کس حال میں ہیں؟، میرا جی چاہتا ہے اُن کے لیے ایک کالم لکھوں جس کا عنوان ہو ’’آواز دے کہاں ہے ؟‘‘… اب وہ ہمیں صرف آواز ہی دے دیں ہمارے لیے یہی کافی ہے، پچھلی سے پچھلی عید پر جب کورونا عروج پر تھا اُنہوں نے بڑا دلچسپ بیان دیا تھا جسے بڑی شہرت مِلی تھی، اُنہوں نے فرمایا تھا ’’ نوپپی نوجپھی ‘‘… اُن کے اِس بیان یا پالیسی کا سب سے زیادہ نقصان اُنہیں ہی ہوا ہوگا۔ مگر جو نقصان شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کرکے اُنہیں ہوا وہ ناقابل تلافی ہے۔  اب شاید کوئی جماعت اُنہیں قبول نہ کرے۔ ہمارے  کچھ سیاسی رہنما شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری میں اتنا آگے نکل جاتے ہیں بعد میں اپنی خواہش کو روایت کے مطابق پارٹی تبدیل کرنا اُن کے لیے مشکل ہوجاتا ہے، بے چارے شیخ رشید اور فواد چوہدری آج کل اسی مشکل سے دوچار ہیں، اب اُن کے پاس سوائے  اِس کے اور کوئی آپشن ہی نہیں بچا جس پارٹی میں وہ موجود ہیں، اُسی میں گلتے سڑتے رہیں۔ ویسے شیخ رشید کی ہمیشہ ایک ہی ’’پارٹی ‘‘ رہی وہ بھی اب نہیں رہی ۔اُن کے پاس بچی کھچی عزت محفوظ کرنے کا واحد راستہ اب یہی رہ گیا ہے وہ اپنے کہے کے مطابق سیاست کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیں۔ممکن ہے اُن کی چھوٹی سی اِس ’’قربانی‘‘ سے سیاست کی تھوڑی بہت عزت بحال ہو جائے ۔ اِس کا ایک فائدہ اُنہیں یہ ہوگااُنہیں مزید جھوٹ نہیں بولنا پڑیں گے۔ اللہ جانے عمران خان نے اُن کا کیا بگاڑا ہے وہ مسلسل یہ کہنے سے باز ہی نہیں آرہے ’’ میں عمران خان کے ساتھ ہوں‘‘ اُن کے ساتھ ہی کی وجہ سے بے چارے عمران خان اُس مقام پر پہنچ گئے ہیں واپسی  کا راستہ اسے اُن کے لیے تنگ وتاریک ہوتا جارہا ہے، شیخ رشید ہاتھ میں تیل کی شیشیاں پکڑ کر کہہ رہے ہوتے ہیں، ’’مالشیا نہیں ہوں‘‘۔ بے چارے ’’اصلی حکمرانوں‘‘ کی مالش اور پالش کرتے کرتے اُس مقام پر آن گرے جہاں مالش اور پالش کرنے کے لیے اُن کے پاس صرف ایک ہی شخص رہ گیا وہ عمران خان ہے۔ سنا ہے خان صاحب بھی ذرا تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں شیخ رشید کو بلا لیتے ہیں ۔…شیخ رشید کے ’’فنِ مالش وپالش‘‘ کا اصلی لُطف تو ’’اصلی حکمرانوں‘‘ نے اُٹھایا جس کے نتیجے میں جس حکمران اعظم نے اُنہیں اپناچپڑاسی نہیں رکھتا تھا اُسے اُنہیں اپنا وزیر داخلہ بنانا پڑ گیا، شیخ رشید جی ایچ کیو کے گیٹ نمبر 4کا بڑاذکر کرتے ہیں، اِس گیٹ کے اندرجتنی باروہ ’’داخل‘‘ ہوئے اُن کا حق بنتا تھا وزیر داخلہ اُنہیں ہی بنایا جائے ورنہ جس طرح کی اہلیت کامظاہرہ ہمارے محترم خان صاحب کی حکومت کررہی تھی اُس کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ کا اضافی چارج وزیراعلیٰ پنجاب بزدار کے پاس ہونا چاہیے تھا۔… اِس بار ہماری عید تھوڑی پھیکی اِس لیے بھی گزری ہمارے پی ٹی آئی کے دوستوں و سہیلیوں کے مزے مزے کے عید مبارک کے جو مسیجزآیا کرتے تھے وہ نہیں آئے، ہمارے پی ٹی آئی کے کچھ دوست اپنی حکومت گرنے پر باقاعدہ حالت ماتم میں ہیں۔ وہ اسے ’’سانحہ کربلا‘‘ سے کم نہیں سمجھتے، سو اِس عید کو وہ محرم الحرام سمجھ رہے تھے، ویسے پی ٹی آئی کے صرف چند ’’ مال پسند رہنما‘‘ ہی حالت غم میں ہیں، ورنہ پی ٹی آئی کے جو کارکن ہیں وہ اپنی حکومت گرنے پر کس قدرحالت غم میں ہیں اُس کا اندازہ حکومت گرنے کے بعد اُن کے احتجاجی جلسوں یا ریلیوں سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ اپنی احتجاجی ریلیوں میں جس طرح سج سنورکر ،آدھے لباس پہن کر ، فُل میک اپ کرکے ، پاکستان کو’’ریاست مدینہ‘‘ بنانے کے لیے وہ نکلے ہوتے ہیں، جس طرح ناچ گانے ہورہے ہوتے ہیں ہمیں یہ سمجھنے میں شدید دشواری ہوتی ہے۔ وہ اپنی حکومت کے ختم ہونے پر احتجاج کررہے ہیں یا اُس کا جشن منارہے ہیں؟۔یقین کریں جس طرح کا رونق میلہ وہاں لگا ہوتا ہے میرا اپنا جی چاہتا ہے شدیدگرمی کے باوجود اِن ریلیوں میں، میں شریک ہوکر کسی کو دھکا دُوں، کوئی مجھے دھکا مارے، کسی کو میرا بازو لگے ، کوئی مجھے ’’موڈا ‘‘ مارے۔ تفریح کے سارے ذرائع یہاں ختم ہوچکے ہیں، واحد ذریعہ اب صرف پی ٹی آئی کی ریلیاں ہی ہیں … خان صاحب نے اپنے کارکنوں کو حکم جاری کیا تھا ’’ وہ چاند رات کو پی ٹی آئی کے پرچم لے کر باہرنکلیں اور اپنے حکومت ختم ہونے کا احتجاج کریں ‘‘۔ چاند رات کو اپنی سیاست سے جس طرح خان صاحب نے آلودہ کیا یہ ہماری تاریخ میں اُس کی پہلی روایت یا پہلی مثال ہے۔ جس طرح کے منتقم مزاج وہ اب ہوچکے ہیں ممکن ہے اپنے کارکنوں کویہ ہدایت بھی اُنہوں نے کی ہو عید کی نماز کے فوراً بعد جب اپنے دوستوں وعزیزواقارب سے وہ گلے ملیں سب ایک دوسرے کے کانوں میں دو باتیں ضرور کہیں، ایک یہ کہ امریکہ نے ہماری حکومت ایک خاص سازش کے تحت ختم کی، اور دوسری یہ کہ فرح گوگی بے قصور ہے ‘‘…جس طرح خان صاحب فرح گوگی کی صفائیاں دے رہے ہوتے ہیں سمجھ ہی نہیں آرہی ہوتی فرح گوگی بے قصور ہے یا خان صاحب ’’قصور وار‘‘ ہیں؟۔…شکر ہے خان صاحب نے محترم عالی مقام مولانا طارق جمیل صاحب سے یہ فتویٰ جاری نہیں کروادیا کہ ’’اِس بار عید کے نماز کی ادائیگی کے فوراً بعد جو شخص امریکہ کو گالیاں نہیں دے گا یا یہ دعا نہیں کرے گا کہ ’’اللہ فرح گوگی کو خود ہی بے قصور ثابت کردے‘‘ اُس کے رمضان کے سارے روزے ضائع ہوجائیں گے اور ممکن ہے عید کی نماز سے قبل اُس کا دیا ہوافطرانہ بھی قبول نہ ہو !!

مصنف کے بارے میں