ہیرے دا کوئی مل نہ پاوے،کھوٹے سکے چلدے ویکھے

ہیرے دا کوئی مل نہ پاوے،کھوٹے سکے چلدے ویکھے

عبداللہ خان سنبل کوآخر کار وفاقی حکومت نے چیف سیکرٹری پنجاب لگا ہی دیا ہے،تکنیکی طور پر تو پہلے بھی وہی اس عہدے کی دیکھ بھال کر رہے تھے،پنجاب حکومت نے چیف سیکر ٹری پنجاب لگانے کے لئے کافی عرصہ پہلے ان کا نام بھی بھیجا تھا وہ ایک عمدہ افسر ہیں مگر بھلا ہو کامران علی افضل کا کہ وہ ایک سوبیس دنوں کی غیر ملکی رخصت پر چلے گئے، چیف سیکرٹری پنجاب کے عہدے سے ان کی جان چھوٹی،وہ تو ایک عرصے سے کمبل کو چھوڑ رہے تھے مگر کمبل ہی انہیں چھوڑ نہیں رہا تھا،ا ن کے ساتھ وفاق اور پنجاب دونوں حکومتوں نے ہاتھ کیا،ایک بہت ہی اچھا،محنتی،کام کرنے والا افسر دو حکومتوں کی باہمی چپقلش کا شکار ہو گیا۔اس کا تو کیا ہی نقصان ہوا ہو گا؟ اس ملک کا نقصان ضرور ہوا ہے،کامران علی افضل پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے ہزاروں افسروں میں ایک بیش قیمت بلکہ ہیرا افسر ہیں،انہیں اور ان جیسے افسروں کو ضائع نہیں کرنا چاہئے مگر بقول بابا بلھے شاہ
ہیرے دا کوئی مل نہ پاوے
کھوٹے سکے چلدے ویکھے
بیوروکریسی کاکسی بھی حکومت کی کامیابی اور ناکامی میں اہم کردار مانا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں بیوروکریسی کیسے ڈیلیور کر سکے گی جب اس کی اپنی ہی ناؤ ڈانواں ڈول ہو،اس وقت بیوروکریسی کا کوئی پرسان حال نہیں حالانکہ ہم بہترین افسروں کی ایک لاٹ رکھتے ہیں،کبھی مرکز اور پنجاب کی بیوروکریسی کو باقی صوبوں کی نسبت بہت ہی اچھے الفاظ میں یاد کیا جاتا تھا کہ یہ بد ترین حالات میں بھی معاملات کو سنبھال لیتی تھی،مگر اب سب ایک جیسا ہے۔ اکثر جگہوں پر پسند نا پسند کی بنیاد پر بندر بانٹ ہو رہی ہے،صوبائی افسروں کی اچھی پوسٹنگز قابل تعریف بات اور اب تو وفاقی افسروں کے مقابلے میں فیلڈ میں انہیں زیادہ حصہ دیا گیا ہے جو خوش آئند ہے مگر تعیناتی کے ضمن میں افسروں بارے عام رائے کو مد نظر نہیں رکھا جا رہا،اسی طرح پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے اچھے افسر نشانہ بن رہے ہیں اس میں شائد نہیں بلکہ یقیناً سیاسی عمل دخل ہے لیکن اگر سپریم کورٹ کے نومبر2012میں جسٹس خواجہ جواد کے فیصلہ پر عمل کیا جاتا توآج معاملات میں بہت حد تک بہتری آگئی ہوتی اور ہمیں یہ نہ سننا پڑتا کہ ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر کا دس دنوں میں چار بار تبا دلہ کر دیا گیا ہے اور ایک ایجوکیشن افسر کو ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ لگا دیا گیا ہے،کیڈر اور نان کیڈرکا فرق ختم کر کے افسروں کو ایک ہی صف میں کھڑا کر دیا گیا ہے۔
جسٹس جواد ایس خواجہ کا تصنیف شدہ تاریخی فیصلہ حکم دیتا ہے کہ تقرریاں، برطرفیاں اور ترقیاں اصولوں کے مطابق ہوں اوراگر صوابدیدی اختیار کا استعمال کیا جائے تو شفاف انداز میں کیا جائے،عہدے کی معیاد،تقرری او ر تبادلے اصولوں کے عین مطابق ہوں،سول ملازم کسی افسربالا کے غیر قانونی حکم کو نہ مانیں اور کسی بھی عہدیدار کی بحیثیت او ایس ڈی تقرری نہیں ہونی چاہئے حتٰی کہ کوئی ناگزیر وجہ نہ ہو،یہ فیصلہ جس پٹیشن پر دیا گیا اس کے جمع کرانے والے کو دوہری شکایت تھی،پہلی یہ کہ سول سروس کی حیثیت کو ریاست کی ملازمت کے طور پر بحال کیا جائے نہ کہ حکومت کی،دوسری یہ کہ سیاسی دخل اندازی کو روکنا چاہئے،فیصلہ میں فاضل جج نے سول سروس اور سیاسی انتظامیہ کو گورنمنٹ کی انتظامی شاخ کے دو بازو قرار دیا،سیاستدان کی نظر میں ایسا نہیں ہے، اس کی عقل ودانش کے مطابق، وہ پالیسی سازی کی اعلیٰ ترین ذمہ داری پر مامور ہے اور سول ملازم اس کی پالیسیوں کو نافذ کرنے کا ماتحتی کردار ادا کرنے پرمامور ہے،منتظمین کا سیاسی رنگ میں رنگنا ایسی سوچ کا قدرتی نتیجہ ہے۔
ملک میں پارلیمانی نظامِ حکومت ہے جس کی تین شاخیں عدلیہ،مجلسِ قانون ساز اور انتظامیہ ہوتی ہیں،تیسری شاخ کی سربراہی وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے،سول سروس ان کے براہ راست اختیار کے ماتحت کام کرتی ہے ان کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہوتا ہے جسے اقتدار میں آتے ہی اپنے منشور پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے،وعدے پورے کرنے میں ناکامی کا مطلب جماعت کا زوال پذید ہونا ہوتا ہے،سول سروس کی ذمہ داری حکومتی جماعت کے منشور کے مطابق عملی کارکردگی،پالیسی سازی میں مدداور منصوبوں اور اقدامات پر عمل درآمد کرنا ہے۔
1947 میں انتظامیہ کاایک نظام پاکستان کو برطانیہ سے ورثہ میں حاصل ہوا،سابقہ انڈین سول سروس کیآئینی ڈھانچے سے ماخوذ اس ادارے کو غیر سیاسی،موثر اور میرٹ پسند مانا جاتا تھا،بدقسمتی سے سول سروس نے جنرل ایوب، جنرل یحییٰ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں فوجی حکمرانوں کے وفادار شریک کاروں کا کردار نبھایا، قبل ازیں یہ سول ملازمین سمجھتے تھے کہ انہیں آئینی تحفظ حاصل ہے،اس لئے یہ سیاستدانوں سے تضحیک آمیز رویہ اختیار کرتے رہے،1972 میں اقتدار میں آنے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے سول سروس کے بڑے حصے کاخاتمہ کردیا انہوں نے آئینی ضمانتوں کو ختم کر کے سول ملازمین کیلئے ادارے کا اپنا ضابطہ اخلاق متعارف کرایا،ان کے حوصلے پست کرنے کیلئے میڈیا کے ذریعے ایک مہم چلائی گئی جس میں سیاستدانوں نے ان کے لئے نوکرشاہی، افسر شاہی اور بابو جیسے تمسخرآمیز القابات کا استعمال کیا، افسروں کو عوامی سطح پر ذلیل کیا گیا اور اہم عہدے عارضی طور پر بھرتی کئے گئے ان نئے ملازمین کو دئیے گئے جن کی بھرتی مشتبہ انداز میں کی گئی تھی۔
بے نظیر اور نواز شریف کے ادوار میں سول سروس مزید سیاسی ہوتی نظرآئی، دونوں سیاسی جماعتوں نے ایسے افسروں کی فہرستیں تیار کیں جو ان کی جماعت سے ہمدردی رکھتے تھے یا مخالف،افسروں نے اس حقیقت کو پا لیا کہ ضروری سیاسی حمائت کے بغیروہ بیوروکریسی کے پھسلن زدہ پہاڑ کو سر نہیں کر سکیں گے،کچھ سول ملازمین شاید اتفا ق نہ کریں البتہ بد قسمتی سے یہ ایک کڑوی حقیقت ہے،مگر کیاسیاسی ہونا اتنی بری بات ہے؟جبکہ کئی ممالک ایک غیر جانبدار سول سروس کے نظریے کو ترک کررہے ہیں،امریکا میں ایک سپائلز نظام نافذ ہے جس کے تحت ہر چار سال کے بعد واشنگٹن میں انتظامیہ کے تبدیل ہو تے ہی اعلیٰ سطح پر تمام عہدوں پرنئے صدر کی پالیسی کے حمایتی افراد مامو رکئے جاتے ہیں،یو ں تو 1883 کے پینڈلٹن ایکٹ اور 1939 کے ہیچ ایکٹ نے انتخابی عمل میں شفافیت کے ایک عنصر کو متعارف کرایا اور نچلے اور درمیانے درجے پر سول ملازمین کے درمیان سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی مگر اعلیٰ ترین درجے مکمل طور پر سیاسی ہیں۔
برطانیہ کی سول سروس غیر جانبدار رہی ہے، مگر یہاں بھی حالات بدل رہے ہیں، جون 2012 میں کیبنٹ منسٹر، فرانسس ماڈ نے سول سروس کی اصلاح کیلئے ایک مہم کو متعار ف کرایا جس کا مقصد نیوزی لینڈ میں نافذ نظام کی طرح سول سروس کے اعلیٰ درجوں پر معاہدہ کے تحت عارضی تعیناتیاں کرنا تھا۔
ان حالات اور ملکی بیوروکریسی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے بلاشبہ یہ کہہ دینا اور مان لینا ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر مکمل عملدرآمد کرایا جائے، مگر سوال یہ بھی ہے کہ ہماری خوفزدہ،پست حوصلہ، سیاست زدہ بیوروکریسی اپنے رویہ اور نظام میں تبدیلی قبول کرے گی؟