ریلیف پیکیج + تکلیف پیکیج

Mushtaq Sohail, Naibaat newspaper, e-paper, Pakistan, Lahore

بڑی زیادتی ہے 30 اکتوبر کو یعنی صرف ایک ہفتہ قبل پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کی سمری مسترد کی، فرمایا حکومت عوام کو قیمتوں کا بوجھ منتقل کرنے کے بجائے انہیں ریلیف دینے کو ترجیح دے رہی ہے۔ عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی قیمتوں کا بوجھ حکومت خود برداشت کرے گی۔“ فرمان عالی شان کی سیاہی خشک نہیں ہوئی تھی کہ 3 نومبر کو قوم سے خطاب میں 120 ارب کے ریلیف پیکیج کے اعلان کے ساتھ ہی ”جان لیوا مژدہ“ بھی سنایا کہ پیٹرول کی قیمت بڑھے گی لیکن مہنگائی نہیں بڑھنے دیں گے“۔ 4 نومبر کو لوگ سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ 120 ارب کا ریلیف پیکیج کس کو دیا گیا ہے۔ تنخواہ دار ملازمین اور سفید پوش طبقہ تو بھیک مانگنے پر مجبور ہوگیا۔ لوگ اس پر بھی دن بھر سرکھپاتے رہے کہ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگا تو مہنگائی کیسے نہیں بڑھے گے۔ عوام شاید کبھی یہ سائنس نہیں سمجھ پائے، نا سمجھ ہیں اسی لیے طفل تسلیوں پر مطمئن ہوجاتے ہیں مگر 5 نومبر رات کی تاریکی میں اچانک پیٹرول بم گرا دیا گیا۔ بات کے پکے اور آئی ایم ایف سے کیے وعدے کے سچے، رات کے ڈیڑھ بجے نوٹیفکیشن جاری ہوا کہ پیٹرول 8 روپے 3 پیسے اور ڈیزل 8 روپے 14 پیسے مزید مہنگا ملے گا، مٹی کا تیل بھی 6 روپے 27 پیسے مہنگا۔ غریب کے استعمال کی چیز لیکن 116 روپے 53 پیسے فی لیٹر دستیاب، پیٹرول 137 روپے سے ایک دم 145.86 روپے لیٹر ہو گیا۔ غریب پرور حکومت ہے۔ دن کے اجالے میں ریلیف پیکیج دیا رات کی تاریکی میں تکلیف پیکیج عطا فرمایا، ریاست مدینہ کے نام لیواؤں کو راتوں کو بھی نیند نہیں آتی۔ ایک ماہ میں پیٹرول کی قیمت میں 20 روپے اضافہ، اس پر بھی غربت کم کرنے کے دعوے، عوام کے احتساب کا ڈر نہ خوف خدا۔ کیا یہ بات قابل فہم نہیں کہ پیٹرول کی قیمتوں سے جڑی تمام مصنوعات اور بازاروں میں دستیاب اشیاء صرف کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ کارخانوں فیکٹریوں میں ڈیزل اور پیٹرول کی کھپت، رسد کے لیے ٹرانسپورٹ میں پٹرول کا استعمال کارخانے یا فیکٹری کا مالک خود کیوں بھگتے گا صارف کی جیب سے نکالے گا۔ اول آخر بوجھ صارف کی جیب پر پڑتا ہے۔ غربت کی چکی میں پسنے والے 70 فیصد عوام نے اسے ”تکلیف پیکیج“ قرار دے دیا۔ ایک مزدور نے تو جل بھن کر کہا تڑپا کیوں رہے ہو زہر دے کر مار دو، بچوں کو کہاں سے کھلائیں اپنے آپ کو فروخت کے لیے پیش کر رہے ہیں۔ کوئی وزیر، مشیر، معاون خصوصی یا سرکاری درباری ترجمان ہی خرید لے ”لگا ہے مصر کا بازار دیکھو“ بچے تو پیٹ بھر کے کھانا کھالیں گے، فرمایا ”پٹرول دنیا بھر میں سب سے سستا پاکستان میں ہے“ پتا نہیں کس نے بتا دیا۔ ”لوگوں نے کہا کہ دشمن پڑوسی ملک بھارت میں پٹرول 110 یا 113 روپے لیٹر دستیاب ہے۔ جہاں پٹرول مہنگا وہاں دیگر سہولتیں میسر نہانے دھونے اور سونے جاگنے پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا، ہر سال ٹیکس وصولیوں میں اربوں کے اضافے کا ہدف نہیں دیا جاتا، ٹیکسوں کا لگا بندھا نظام ہے جس کے بعد ان ممالک میں بجلی، پانی، گیس اور تعلیم کی تمام سہولتیں
فراہم کی جاتی ہیں۔ یہاں تنخواہوں سے ٹیکس کاٹے جانے کے بعد بجلی کے بلوں میں آدھے درجن ٹیکس، پانی اور گیس کے بلوں میں نت نئے ٹیکس، تعلیم ماں باپ کی ذمہ داری، ہمت ہے تو پڑھا لو ورنہ حالات کے دھارے پر چھوڑ دو، بیٹا خود ہی پل کر بڑا ہو جائے گا۔ بڑا ہو کر کیا بنے گا یہ اس کی صوابدید یا ماں باپ کی قسمت، چندوں کا دور گزر گیا۔ اب گزر اوقات کے لیے آئی ایم ایف سے قرضے اور اپنوں سے ٹیکس وصولی کا رواج ہے۔ اللہ ملک پر رحم کرے، تین سالوں میں اربوں ڈالر کے قرضے، 40 ارب کے قرضے تو روپے کی قدر خاک میں ملنے سے بڑھ گئے۔ لوگ سوال تو کریں گے کہ کنٹینر پر چڑھ کر جو کچھ کہا جاتا تھا کیا وہ سب جھوٹ تھا؟ خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا۔ کس طمطراق سے کہا جاتا تھا ہمارے پاس 200 ٹرینڈ افراد کی ٹیم ہے جو 90 دن میں سب ٹھیک کردے گی بعد میں پتا چلا کہ 200 میں ایک صفر زائد لگ گیا۔ تربیت یافتہ کوئی نہیں تھا گزارے کے لائق 20 سے زائد افراد نہ نکلے باقی ادھر ادھر اندر باہر سے پورے کرنے پڑے۔ ان ہی کو بھگت رہے ہیں۔ کمال ہے اتنی مہنگائی کے بعد بھی اپنے شیخ صاحب کے ہاتھ میں بجلی گیس کے بل اور ماچس نظر نہیں آتی۔ مختلف ادوار میں پندرہ وزارتیں بھگتا چکے ہیں۔ ہر پارٹی کو یہی یقین دہانی آپ کے ساتھ کھڑا ہوں، کھڑا رہوں گا۔ 2014ء میں 8 روپے یونٹ کے حساب سے آنے والے بجلی کے بل جلانے کے نعرے لگایا کرتے تھے۔ اب 16 روپے سے زائد بلکہ کراچی میں 24 روپے یونٹ پر بھی زبان نہیں کھلتی۔ مصلحتوں کے تالے پڑے ہیں، اندر سے خوفزدہ بھرے میلے میں تنہا رہ گئے تو کہاں جائیں گے۔ جملہ ہائے معترضہ کو چھوڑیے۔ حقائق پر نظر ڈالیے، فرمان عالی شان اور وزیروں کی تقریریں کہ عالمی منڈی میں پیٹرول مہنگا ہونے کے باعث پاکستان میں بھی قیمتیں بڑھانی پڑیں حقیقت یہ ہے کہ عالمی منڈی میں اس وقت خام تیل کی قیمت 80 ڈالر فی بیرل ہے۔ کم ہو رہی ہے بلکہ کم ترین سطح پر پہنچ گئی۔ دس سال پہلے کے حالات پر نظر ڈالیے 2010ء سے 2014ء تک عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 80 سے 85 ڈالر فی بیرل تھی 100 ڈالر سے اوپر بھی گئی لیکن ان دس سالوں میں پیٹرول کبھی بھی 145 روپے لٹر نہیں ہوا، وجہ کیا تھی ڈالر اس وقت 88 سے 98 تک پہنچا تھا۔ اس کے مقابلے میں 2018ء کے بعد ڈالر 109 روپے سے بڑھ کر 176 روپے تک جا پہنچا۔ روپے کی قدر خاک میں مل گئی۔ ایک روپے میں پیٹرول ایک بوند ہی آئے گا۔ پیٹرول باہر کی پراڈکٹ لیکن آٹا، چینی کو کیا ہوا۔ چینی پیٹرول سے مہنگی 150 روپے کلو میں دستیاب، شوگر ملوں پر کنٹرول نہیں مہنگی چینی فروخت کر کے 245 ارب کا ٹیکہ لگا گئے۔ 245 ارب عوام کی جیبوں سے گئے۔ اس پر دھمکیاں کہ چینی کا بحران آنے والا ہے۔ سارے پیکیج مافیاز کھا گئیں۔ عوام کو کیا ملا گندم، آٹا، خوردنی تیل اپنے ملک کی پیداوار لیکن ان کی قیمتیں بھی عوام کی پہنچ سے باہر،خوردنی تیل کی قیمت 160 سے 390 روپے کلو کیسے ہوگئی؟ اربوں کی سبسڈیز جن کو ملتی ہے انہیں کو ملیں انہوں نے سبسڈیز وصول کرنے سے پہلے اور بعد میں آٹا، چینی، گھی سب کچھ مہنگا کردیا۔ عوام کو صرف لالی پاپ، ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ میں 28 اشیاء کے مہنگا ہونے کا انکشاف، مہنگائی 15فیصد سے بڑھ گئی۔ عوام کی جیبیں خالی ریلیف پیکیج کی عنایات کن پر ہیں؟قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اپوزیشن والوں کی تقریروں پر برہمی کا اظہار کہ ”کرپٹ لوگ تقریریں کرتے ہیں“ صرف الزامات پر کرپشن کے فتوے، ثابت کر کے سزائیں دیں اور سکھی ہوجائیں۔ اقتدار کا گورکھ دھندہ عوام کی سمجھ سے باہر، خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے پردہ سرکایا ہے کہ رات کی تاریکی میں اجلاس ہو رہے ہیں۔ کوئی نہیں بتاتا کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ ایوانوں سے باہر چہ میگوئیاں جتنے منہ اتنی باتیں کسی نے کہا کچھڑی پک رہی ہے 2018ء میں بھی ایسی ہی کھچڑی پکی تھی چڑیا لائی دال کا دانا کوا لایا چاول کا دانا شیخ رشید نے آگ جلائی اور کھچڑی تیار ہوگئی۔ تین سال بعد پھر وہی حالات درپیش اہم شخصیات سے اہم شخصیات کی خفیہ ملاقاتیں، دال چاول مہنگے کھچڑی میں زرمبادلہ خرچ ہوگا۔ قرضوں کی ادائیگی عوام کی جیبیں خالی کر کے کرنا پڑے گی۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اگلا بجٹ کون پیش کرے گا۔ جو کچھ برآمد ہوگا اس میں مہنگائی بنیادی کردار ادا کرے گی۔