وہاں سر جھکاتے ہیں اولیا

وہاں سر جھکاتے ہیں اولیا

جب بات میرے آقا ؐ کی ہو تو ہر کلمہ گو مسلمان کے ادب کے قرینوں کا معیار اپنی آخری وسعتوں کو چھونے لگتا ہے۔ امام بری ؒؒنے ساری عمر نبی کریمﷺ کا اسم مبارک اپنی زبان سے ادا نہیں کیا بلکہ جب ان کا ذکر کرتے تو سرکار کہتے اور کہتے کہ میری زبان اس قابل کہاں کہ ان کا نام لے سکوں۔ نبوت، رسالت اس کائنات میں اللہ کی جانب سے بہت بڑی نعمتیں ہیں لیکن میرے آقا ؐ کی شان تو اس سے بھی کہیں بڑی ہے کیونکہ جس کائنات میں یہ بڑی نعمتیں ہیں اس کائنات کی تخلیق ہی میرے آقا ؐ کی وجہ سے ہوئی۔ حدیث قدسی میں ارشاد ہوتا ہے کہ حبیب میں یہ زمین و آسمان خلق نہ کرتا اگر تیری خلقت مقصود نہ ہوتی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس ساری کائنات کی حقیقت میرے آقاؐ کی ذات مبارک کے سامنے کیا ہے یہ کائنات بھی اپنی تخلیق پر میرے آقا ؐ کی شکرگزار ہے۔ اسی بات کی حقیقت کو میرے آقاؐ نے اس طرح امت کے سامنے کھول کر رکھ دیا کہ آپؐ نے جبریل ؑ سے پوچھا کہ تمہاری عمر کتنی ہے تو جناب جبریل ؑ نے جواب دیا کہ ایک ستارہ ستر ہزار سال بعد طلوع ہوتا ہے اور میں نے اس ستارے کو ستر ہزار مرتبہ دیکھا ہے آپؐ نے اپنی پیشانی مبارک سے دستار کو ہٹایا اور کہا کہ کیا وہ ستارہ یہ تو نہیں۔ اللہ اللہ وہ جبریل ؑ جو ایک پل میں عرش سے فرش زمین تک پہنچنے کی قدرت رکھتے ہیں ان کی حیثیت میرے آقاؐ کے سامنے کیا ہے اور یہ بات خود جناب جبریل ؑ کو بھی معلوم تھی یہی وجہ ہے کہ جب معراج کے موقع پر سدرۃ المنتہیٰ سے آگے جانے کا وقت آیا تو جبریل ؑ ایسے مقرب فرشتہ نے بھی اپنی معذوری اور بے بسی کا اظہار اس طرح کر دیا کہ اس سے آگے اگر ایک قدم بھی اور جاؤں گا تو میرے پر جل جائیں گے۔
عرب کا معاشرہ جس میں میرے آقاؐ کی ولادت با سعادت ہوئی وہ معاشرہ جہالت کی انتہائی بلندیوں کو چھو رہا تھا ہر قسم کا ظلم و ستم اس عرب معاشرے میں اس طرح سے ہو رہا تھا کہ اسے جائز تصور کیا جاتا تھا اگر کسی کے گھر بیٹی پیدا ہوتی تو اسے زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ طاقتور کمزور پر ہر طرح کا ظلم کرتا اور کوئی اسے روکنے والا نہیں تھا غلاموں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتا۔ ہر سال پورے 
عرب کے قبائل بیت اللہ میں حج کی غرض سے جمع ہوتے لیکن اس حج کو حج کہنا بھی گناہ ہے کہ اس وقت اللہ کا گھر جسے سب سے زیادہ جو گناہ نا پسند ہے وہ شرک ہے وہ بیت اللہ بتوں سے بھرا ہوا تھا۔ سماجی، اخلاقی اور معاشرتی طور پر عربوں میں ہر وہ برائی پائی جاتی تھی جو کسی بھی انسانی معاشرے کو حیوانی معاشرہ بنا سکتی تھی ایسے میں مشیت الٰہی جوش میں آئی اور جہالت کے اندھیروں میں نور کی ایک کرن نمودار ہوئی۔ وہ نور کی کرن کچھ ایسی تھی کہ اس سے پوری کائنات منور ہو گئی اسی لئے تو اللہ کریم نے اپنے کلام میں اپنے حبیبؐ کو سراج منیر کہا ہے اور مزید کہا کہ ”اے حبیب ہم نے تمہیں عالمین کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے“۔ اس آیت مبارکہ سے میرے آقاؐ کی ذات کو مکمل تو نہیں لیکن کسی حد تک سمجھا جا سکتا ہے۔ جس قرآن میں یہ آیت ہے اسی میں یہ آیت بھی ہے کہ اللہ رب العالمین ہے۔ ان دونوں آیات کی روشنی میں مجھ ایسا گناہ گار اتنی بات تو بلا جھجک کہہ سکتا ہے اللہ رب العالمین ہے اور میرے آقاؐ رحمت اللعالمین ہیں تو جہاں تک میرے رب کی خدائی ہے وہاں تک میرے آقاؐ کی رحمت کی وسعت ہے۔ کہ قرآن پاک میں یہ بات موجود ہے کہ فرعون کی ہلاکت کے بعد جب جناب موسیٰ ؑ چالیس روز کے لیے گئے تو اپنے بھائی جناب ہارون ؑ کو اپنے پیچھے چھوڑ گئے ان چالیس دنوں کے دوران سامری نے بنی اسرائیل والوں سے سونا لے کر ایک بچھڑا بنایا اور پھر وہ سونے کا بچھڑا زندہ ہو گیا یہ ساری تفصیل کتب میں موجود ہے لیکن اس میں جو سمجھنے والی بات ہے وہ یہ ہے کہ علمائے کرام نے اس سونے کے بچھڑے کے زندہ ہونے کی جو وجہ بیان کی ہے وہ بڑی اہم ہے۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ جب بنی اسرائیل دریائے نیل پار کر رہے تھے تو اس وقت جناب جبریل ؑ کسی جانور پر سوار ساحل پر موجود تھے سامری جناب جبریل ؑ کو پہچانتا تھا اس نے اس وقت اس جانور کے سموں کی مٹی، جس پر جناب جبریل ؑ سوار تھے، کی کچھ مقدار لے کر اپنے پاس رکھ لی۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ جب سامری نے سونے کا بچھڑا بنا لیا تو اس بے جان سونے کے بچھڑے کے منہ میں اس جانور کہ جس پر جناب جبریل ؑ سوار تھے کے سموں کی مٹی ڈالی تو اس بے جان بچھڑے میں جان پڑ گئی اب وہ لوگ جنھیں میرے آقاؐ کی عظمت سے انکار ہے ان سے گذارش ہے کہ ایک ایسا جانور کہ جس پر جناب جبریل ؑسواری کر لیں اس جانور کے سموں کی مٹی کو قدرت اتنا شرف بخش دیتی ہے کہ اگر کسی بے جان سونے کے بچھڑے کے منہ ڈال دیا جائے تو اس میں جان پڑ جاتی ہے تو پھر میرے آقاؐ کے قدموں کی مٹی کو کیا کیا شرف حاصل نہیں ہوں گے اسی لیے تو ہم ایسے گناہ گار دعا کرتے ہیں یا اللہ ہمیں اپنے حبیبؐ کے قدموں کی خاک ہی نصیب کر دے تو ہمارے مقدر سنور جائیں گے۔
دوسری بات جو عرض کرنی تھی وہ 12ربیع الاول کے حوالے سے تھی کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ ہم یہ دن کیوں مناتے ہیں سوال کرنا ان کا حق ہے اور جواب دینا ہمارا فرض ہے۔ گزارش ہے کہ یوم ولادت یا کسی خاص دن کے منانے کو اہل نصاریٰ یا جدید دور میں یورپ سے منسوب کرنا درست نہیں اس لیے کہ اگر یہ موقف حقیقت پر مبنی ہوتا یا یوم ولادت یا کسی خاص دن کا منانا غیر اسلامی ہوتا تو عید الاضحی کے منانے کا حکم اللہ اور اس کے رسول ؐ کی جانب سے امت کو نہ دیا جاتا۔ جناب ابراہیم ؑ خواب میں حکم ملتا ہے کہ اپنی سب سے پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کرو۔ یہ خواب مسلسل تین دن تک آتا ہے تفصیل اس واقعہ کی کتب میں موجود ہے اور سب کے علم میں بھی ہے کہ کیسے جناب اسماعیل ؑ کی جگہ اللہ کی جانب سے مینڈھا آیا اور جناب ابراہیم ؑ کی اس عظیم قربانی کی یاد میں حکم دیا گیا کہ امت مسلمہ ہر سال 10 ذی الحج کو عید الاضحی منائے اور جو صاحب استطاعت ہو وہ اس قربانی کی یاد میں قربانی بھی کرے تو کسی دن کو ایک خاص تاریخ پر ہر سال منانے کا حکم تو اللہ اور اللہ کے رسولؐ نے دے کر سمجھا دیا ہے کہ اس میں کوئی قباحت نہیں لہٰذا اگر جناب ابراہیم ؑکی قر بانی کی یاد میں عید الاضحی منانا جائز اور شریعت کے عین مطابق ہے تو میرے آقاؐ کی ولادت تو اس کائنات کا سب سے بڑا واقعہ ہے تو اگر عاشقانِ رسولﷺ اس دن کو عید میلاد النبی منا کر خوشی کا اظہار کر لیتے ہیں تو اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو گی۔ آخر میں اللہ سے یہی دعا ہے کہ اپنے حبیبؐ اور اس کے پاک گھرانے کے صدقے میں ہم سب کے گناہ بخش دے اور اس امت کو مشکلوں سے نکال دے آمین۔

مصنف کے بارے میں