ناموس خواتین۔۔ تحفظ کے بنیادی تقاضے

Dr Lubna Zaheer, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

خواتین کے خلاف ظلم و تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات، حکومت ہی کے لئے نہیں، معاشرے کے تمام طبقوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ انسانی شکل و صورت کی درندگی کی وارداتیں، وقفے وقفے سے ہوتی رہتی ہیں لیکن ان کی روک تھام کے لئے نہ تو حکومت کوئی مؤثر اقدامات کرتی ہے، نہ قانون نافذ کرنے والے ادارے متحرک ہوتے ہیں، نہ اپنے فرائض سے غفلت کرنے والے اہلکاروں کا محاسبہ ہوتا ہے، نہ مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے اور نہ انصاف کے نظام کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح معاشرے میں بھی وقتی طور پر ایک ابال سا آتا ہے، شور شرابا اٹھتا ہے،  "حقوق نسواں "  کے نام پر بیرونی ممالک سے بھاری فنڈز حاصل کرنے والی این۔جی۔اوز کسی سڑک پر ایک   "فوٹو سیشن"'  کرتی ہیں، چند بیانات اخبارات کی زینت بنتے ہیں اور معاشرہ اپنی اجتماعی ذمہ داری سے سبک دوش ہو جاتا ہے۔ میڈیا ایسی وارداتوں کو اپنی دکان چمکانے کا ذریعہ سمجھ کر خوب رونق لگاتا ہے، عوامی جذبات بھڑکاتا ہے، مظلوم خاندانوں کے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے اور چند دن رونق لگانے کے بعد ایسی ہی کسی نئی واردات کا انتظار کرنے لگتا ہے۔
قانون بنا لینا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ اس طرح کے واقعات کے حوالے سے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی تقسیم بھی ختم ہو جاتی ہے۔ حکومت ایک مسودہ قانون تیار کرتی ہے جسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان بخوشی منظور کر لیتے ہیں۔ صدر مملکت رسمی طور پر اس بل کی توثیق کرتے ہیں اور باضابطہ طور پر ایک قانون بن جاتا ہے۔ یہاں تک کی ساری کارروائی محض کاغذی ہوتی ہے جس میں سیاست کا رنگ غالب ہوتا ہے۔ کوئی جماعت بھی نہیں چاہتی کہ خواتین، بچوں یا ایسے ہی دوسرے طبقات کے حقوق کے لئے بننے والے قانون کی خلاف ورزی یا مخالفت کرئے۔ لیکن کتابوں میں ہوتے ہوئے قانون عملی زندگی میں کسی طبقے کا کس قدر تحفظ کرتے ہیں؟ یہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا شمار ان چند ممالک میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ قوانین موجود ہیں۔ شاید ہی کوئی چھوٹا بڑا جرم ہو جس کے بارے میں قانون موجود نہ ہو۔ یقینا ایسے جرائم کی سزائیں بھی موجود ہیں۔ لیکن نفاذ قانون کے حوالے سے ہماری صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ اسکی بڑی وجہ انتظامیہ کی وہ مشینری ہے جس پر نفاذ قانون کی بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس مشینری کو عام معنوں میں   "پولیس"  کہا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں یہ شعبہ نہایت کمزور اور بے شمار خامیوں کا شکار ہے۔ سب سے بڑی بات وسائل کی کمی ہے۔ مثال کے طور پر اسلحہ، گاڑیاں، تکنیکی سہولتیں، وغیرہ۔ کھٹارا گاڑیوں میں اتنی جان ہی نہیں ہوتی کہ وہ کسی وارداتی کا تعاقب کر سکیں۔ چلو بھر پٹرول کے لئے بھی انہیں ایف۔آئی۔آر درج کرانے آئے فریادی سے مدد لینا پڑتی ہے۔ اور تو اور فریادی سے کہا جاتا ہے کہ وہ بازار سے تھوڑے کاغذ لے آئے ہمارے پاس تمہاری عرضی کے لئے بھی کاغذ نہیں۔  وسائل کی کمی کے بعد ان کی موزوں تربیت کا سوال اٹھتا ہے۔ کوئی نہ کوئی ایسی خامی ضرور ہے کہ کسی طرح کی ٹریننگ بھی پولیس کے اندر عوام کی مدد، خدمت اور تعاون کا جذبہ نہیں ابھار سکی۔ ایک شریف آدمی بھاری نقصان برداشت کر لیتا ہے لیکن تھانے جانے سے گریز کرتا ہے۔ چلا بھی جائے تو اس کے ساتھ ایک مداخلت کار جیسا سلوک ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کرپشن کا مرض ہے جو ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ تھانوں کی حدود میں، بلکہ تھانوں کی ناک کے عین نیچے جرائم کے اڈے دھڑلے سے چلتے رہتے ہیں۔ تھانے کی حدود میں سب سے دلیر اورسب سے محفوظ، علاقے کا وہ شخص ہوتا ہے جسے معاشرہ ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آخر میں پولیس کے اس سب سے بڑے فرض کی باری آتی ہے کہ وہ کسی بھی واردات کے مجرم کو گرفت میں لے اور اسے قرار واقعی سزا دلانے کے لئے کوئی کسر اٹھا نہ رکھے۔ اس حوالے سے بھی باالعموم پولیس کا کردار مثالی نہیں۔ گویا نفاذ قانون کے سب سے اہم اور عوام کے جان و مال کے تحفظ کے ذمہ دار ادارے میں وہ صلاحیت ہی نہیں کہ اپنے فرائض بجا لا سکے۔
مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ بہت سی کمزوریوں اور خرابیوں کے باوجود پولیس میں انتہائی محنتی اور دیانت دار، فرض شناس اور با صلاحیت افراد بھی موجود ہیں۔ افسروں میں بھی اور نچلے درجے کے اہلکاروں میں بھی۔ وہ اکثر دہشت گردوں کا نشانہ بنتے اور ہمارے لئے اپنی جانیں قربان کر دیتے ہیں۔ معاشرہ ایسے افسروں اور اہلکاروں کو سلام پیش کرتا ہے۔ بات ایک عمومی تاثر اور پولیس میں پائی جانے والی ان خرابیوں کی ہو رہی ہیں جو سال ہا سال کے عمل سے جڑ پکڑ چکی ہیں۔ اصلاحات کی کئی کوششیں اب تک کامیاب نہیں ہو سکیں۔
بہت بڑی ذمہ داری میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے الیکٹرانک میڈیا کا دائرہ ناقابل یقین حد تک پھیل گیا ہے۔ اب یہ معاملہ صرف گھروں میں لگے ٹیلی ویژن سیٹس تک محدود نہیں رہا۔ سوشل میڈیا سونامی کی طرح پھیل رہا ہے۔ تقریبا ہر شخص کے ہاتھ میں ایک سیل فون ہے جس کے اندر ایک دنیا سمٹ آئی ہے۔ سو میڈیا انسانی سوچ پر، اس کے کردار پر، اور اس کے رویوں پر تیزی سے اثر انداز ہو رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ میڈیا بھی اجتماعی طور پر ایسا کردار ادا نہیں کر رہا جو ہماری دینی، تہذیبی، اخلاقی اور سماجی قدروں سے ہم آہنگ ہو۔ ہمارے ٹی۔وی ڈرامے، ایک خاص کلاس کی نمائندگی کرتے، ایک خاص کلاس کے تصور آزادی کو پروان چڑھاتے اور نوجوان نسل میں ایک خاص طرح کی باغیانہ سوچ کو ابھارتے ہیں۔ بہت سے جرائم کی جڑ بھی یہ مادر پدر آزاد قسم کے ڈرامے ہیں۔ جو خاص طور پر نوعمر لڑکیوں کے ذہن میں ایک خاص قسم کی آزادی کا تصور پیدا کرتے ہیں۔ "پیمرا "کا ضابطہ اخلاق، کسی پروگرام کے سیاسی مواد کے بارے میں تو بہت حساس  ہے لیکن اس ضابطہ اخلاق کے دیگر پہلووں کو نہایت آسانی سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اب فلمیں کم کم ہی بن رہی ہیں لیکن صوبائی اور مرکزی سطح پر بڑے بڑے سنسر بورڈ نہیں جو ان ڈراموں کے نشر ہونے سے پہلے ان کا جائزہ لے لیں۔ اور تو اور اس بات کو بھی ضروری خیال نہیں کیا جاتا کہ ان ڈراموں کے سکرپٹ ہی کا جائزہ لے لیا جائے۔
خواتین یا بچوں کے خلاف ریپ، تشدد اور قتل کی وارداتوں کے حوالے سے سب سے اہم کردار والدین کا ہے۔ والدین جو ہمیں جنم دیتے ہیں۔ جو ہمیں میٹھی نیند سلانے کے لئے خود راتیں جاگ جاگ کر گزارتے ہیں۔ جو چاہے خود فاقہ کریں لیکن ہمیں پیٹ بھر کر کھانا کھلاتے ہیں۔ محنت مشقت مزدوری کر کے ہماری فیسیں ادا کرتے، ہمیں پڑھاتے ہیں۔ ان سے بڑھ کر دنیا میں ہمارا کوئی خیر خواہ نہیں ہوتا۔ ان کی رائے ان کی راہنمائی، ان کا مشورہ اور ان کی ہمارے معاملات میں دلچسپی ہمارے لئے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ آپ اس چھوٹے سے پودے کا تصور کریں جیسے زمین میں بویا جاتا ہے۔ مالی اسے پانی دیتا ہے۔ اس میں کھاد ڈالتا ہے۔ اس کے آ س پاس  باڑ لگا کر اسے جانوروں سے بچاتا ہے۔ شدید سردی سے بچانے کے لئے اس پہ چھتری لگاتا ہے۔ایسا نہ ہو تو شاید چند دن میں وہ پودا مر جائے یا کوئی بکری اسے چٹ کر جائے۔ والدین کی نگہداشت بھی یہی کردار ادا کرتی ہے اور اس نگہداشت کو نا پسند کرنے یا  پدر سری   (patriarchy)جیسے القابات دینے والے نا انصافی کرتے ہیں۔
خواتین کے تحفظ کے لئے حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، میڈیا، سوسائٹی کے مختلف طبقوں اور والدین کو اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اور سب سے بڑھ کر خود خواتین کو سوچنا ہو گا کہ ان کی آزادی کی حدیں کہاں سے شروع ہو کر کہاں ختم ہوتی ہیں اور عزت و ناموس کے تحفظ کے لئے خود ان پر بھی کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے یا نہیں۔