سرخیاں ان کی…؟

سرخیاں ان کی…؟

٭… تحریک عدم اعتماد…؟
٭… کالم لکھنے بیٹھا تو یوں لگا جیسے میں کسی چوراہے پے کھڑا راستہ ڈھونڈ رہا ہوں کیونکہ میرے چارسُو فریبی کرداروں کے لاکھوں روپ پل پل اپنی شکلیں بدل رہے تھے، ہوش و حواس لوٹے تو ہر طرف تحریک عدم اعتماد کا شور تھا جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض شور شرابا ہے اور آکسیجن سے بھرے چند غبارے ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پھٹ پھٹا جائیں گے۔ ویسے بھی تحریک عدم اعتماد تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف بھی لائی گئی تھی۔ حالانکہ وہ تو سلیکٹڈ بھی نہ تھیں۔ لہٰذا ہمارے معزز ترین سیاستدانوں کو اپنے اپنے کردار بلکہ سیاسی اعمال کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے کیونکہ ہمارے معزز سیاستدان مزاجاً نہ عملاً کسی سیاسی معیار پر پورا اترتے ہیں جبکہ میری خواہش ہے کہ وہ عمل کے لحاظ سے دنیا کی ہر قوم کے سیاستدانوں سے بہت منفرد ہوں۔ وہ اپنے مؤقف اور اصول پسندی سے کبھی منحرف نہ ہوں اور طبیعت کے لحاظ سے اس قدر ایماندار ہوں کہ انہیں کوئی تھپکی لگا سکے نہ ان کا کوئی سیاسی حریف ان پر کوئی بددیانتی کا الزام عائد کر سکے، ورنہ جس قسم کی سیاست وہ کر رہے ہیں یعنی مثال کے طور پر یہی جناب نوازشریف، جناب جونیجو، محترمہ بے نظیر، جناب گیلانی، جناب جمالی کے خلاف محض ذاتی اغراض کے لیے کس کس روپ میں وہ وہ کرتے رہے کہ مدبر، مستند دانشور اور معروف وکیل جناب چودھری اعتزاز احسن کو کہنا پڑ رہا ہے کہ ’’بلاول‘‘ بچ کے رہنا وغیرہ وغیرہ۔ بہرحال میں پچھلے دو سال سے لکھ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں، اگر خطرہ ہے تو پی ٹی آئی کو پی ٹی آئی سے ہی شدید خطرہ ہے جبکہ باقی سب سیاسی بیانیے ہیں۔ جن کے روپ ہی نہیں شکلیں بھی بدلتی رہیں گی۔ اس لئے کہ ہم نے 
’’سیاسی کلچر‘‘ بنا لیا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں سیاسی انتشار پھیلائے رکھنا ہے۔ یوں جمہوریت کے سب سے بڑے دشمن خود جمہوریت پسند سیاستدان ہیں۔ جن کی منفی سیاست سے سیاست تو کیا معیشت بھی تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ دنیا کی کوئی قوم بتا دیں جہاں 24 گھنٹے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان گھمسان کا رن پڑا رہے اور جس سے نہ صرف ہمارے عوام بلکہ ادارے بالخصوص فوج، پولیس، عدلیہ بھی شدید دبائو میں کام کریں۔ مگر سیاسی قوتیں دن رات فراست و تدبر کے بجائے یا عوامی مفادات کے بجائے اپنے اپنے مفادات میں لڑتی مرتی رہیں اور کوئی ایسا متفقہ لائحہ عمل تلاش ہی نہ کریں کہ دکھوں کے مارے عوام دو لمحے سکون لے سکیں اور ملک آگے بڑھ سکے۔ لہٰذا ان حالات میں کون سی سیاست، کون سا جمہوری عمل، کون سا اصول، عجیب و غریب سیاسی مخلوق کی عجیب و غریب سیاسی منطقیں ہیں۔ جس میں ایک تحریک عدم اعتماد بھی ہے جو وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ البتہ امکان غالب ہے کہ پنجاب میں کچھ نہ کچھ اثرات دکھائی دیں گے۔ باقی سب تماشا بلکہ سیاسی تماشا ہے۔ کیونکہ شاید معزز سیاستدان تو نہیں جانتے مگر فیصلہ ساز ہر لمحہ الرٹ ہیں۔ اندرونی حالات اور خارجی سطح پر خطرات کے پیش نظر وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست کسی نئے بحران کی متحمل نہیں ہو سکتی لہٰذا خاطر جمع رکھئے! یہ ’’تحریک عدم اعتماد‘‘ ، تحریک اعتماد میں اگلے ایک سے دو دن میں شاید بدل جائے اور یہ سب ایک دوسرے پے الزامات کی بارش میں بھیگنا شروع کر دیں۔ ویسے بھی وقت ضائع کرنے کے ہم چیمپئن ہیں۔ حالانکہ جن باتوں پر دنگا فساد کر کے افراد منوں مٹی تلے جا سوتے ہیں انہی بے تکی باتوں پر ہلکی سی مٹی ڈال کر ہم دنیا میں پُرامن اور پرسکون زندگی بھی گزار سکتے ہیں۔ جوش ملیح آبادی نے شاید ہمارے متعلق ہی کہا تھا۔
تجھ کو لوہا بن کر دنیا میں ابھرنا چاہئے
یہ اگر ہمت نہیں، تو ڈوب مرنا چاہئے
……………………
٭… جنوبی پنجاب صوبہ…؟
٭… گزشتہ ماہ مجھے بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر مدعو کیا گیا۔ جہاں گوادر کی تاریخ کا ’’گوادر کو حق دو‘‘ تحریک کے زیراہتمام سب سے بڑا احتجاجی دھرنا جاری تھا۔ میرے لئے حیرانگی کی بات تھی کہ اس دھرنے میں بچوں اور خواتین کی اتنی بڑی تعداد تھی کہ اس کی نظیر بلوچستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اگرچہ احتجاجی سراپا احتجاج اپنے مطالبات کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے نعرے بھی لگا رہے تھے، مگر ان مطالبات میں سے دو بڑے مطالبات معاش اور روزگارکے متعلق تھے۔ یقینا حکومت وقت نے دیر آید درست آید کے مصداق ان کے کچھ مطالبات مان لیے مگر میں سمجھتا ہوں ان پر آج بھی عملی اقدام کی اشد ضرورت ہے۔ اس طرح ہمارے جنوبی پنجاب کے عوام زندگی کی نہ صرف بنیادی سہولتوں کو ترستے ہیں بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لیے طویل سفر طے کرتے ہیں۔ تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالتے ہی جنوبی پنجاب کو صوبے کا درجہ دینے کا وعدہ کیا تھا جس میں کافی تاخیر ہو چکی ہے اب جبکہ حکومتی وفاقی معزز وزیر نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لئے ’’بل‘‘ لانے کا اعلان کر دیا ہے پورے علاقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ بے حد ضروری ہے کہ جلد سے جلد جنوبی پنجاب کے عوام کو اس کا حق لوٹایا جائے اور اپوزیشن کا بھی اولین فرض ہے کہ وہ اس عوامی خواہش کی تکمیل میں اپنا آئینی کردار بلکہ عملی کردار بھی ادا کرے تاکہ اس تاریخی قانون سازی میں اس کا بھرپور سنہرا کردار ہمیشہ یاد رہے کیونکہ اس سے نہ صرف صوبہ جنوبی پنجاب میں ترقی و خوشحالی اور بہترین انتظامی امور کے نئے دروازے کھلیں گے بلکہ جنوبی پنجاب کے عوام کا دیرینہ خواب بھی پورا ہو گا۔ جس کا کریڈٹ حکومت اور اپوزیشن دونوں کے حصے میں آئے گا۔

مصنف کے بارے میں