ترقی دُشمن حکمران و اعلیٰ پولیس افسران!

ترقی دُشمن حکمران و اعلیٰ پولیس افسران!

میں اپنے گزشتہ کالم میں کچھ رینکرز پولیس افسران کو اپنی ترقی کے لیے جائز جدوجہد کی بات کررہا تھا، سول سروس میں ترقی کے رائج نظام کے مطابق پی ایم ایس افسران جنہیں پہلے شاید پی سی ایس افسران کہتے تھے، جن کا تعلق صوبائی سروس سے ہوتا ہے اُن کی ترقیوں کے سارے اختیارات چیف سیکرٹری کے پاس ہوتے ہیں، گو کہ اُن کی ترقیاں بھی ڈی ایم جی افسران کی ترقیوں کی رفتار کے مطابق نہیں ہوتیں، مگر یہ بھی نہیں ہوتا کوئی پی ایم ایس افسر بطور ڈپٹی سیکرٹری ہی ریٹائرڈ ہو جائے، جس طرح پولیس میں ایک رینکرز بطور ایس پی ریٹائرڈ ہو جاتا ہے، یہ اصل میں ایک طرح کی ’’جبری ریٹائرمنٹ‘‘ ہوتی ہے، پنجاب کے کچھ رینکرز پولیس افسران نے اِسی ’’جبری ریٹائرمنٹ‘‘ کے خلاف شاید پہلی بار آواز بلند کی ہے۔ میں سمجھتا ہوں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کی یہ آواز دیگر صوبوں سے بھی اُٹھنی چاہیے، قتیل شفائی کے اِس شعر کو سامنے رکھتے ہوئے کہ ’’دنیا میں قتیل اُس سامنافق نہیں کوئی … جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا ‘‘ …پنجاب کے چند رینکرز پولیس افسران کے دیکھا دیکھی اپنے حقوق کی پامالی کے خلاف اب سینکڑوں اے ایس آئی اور سب انسپکٹرز بھی اکٹھے ہوگئے ہیں، یہ بھی باقاعدہ پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے کر آئے ہیں، مجھے نہیں معلوم پہلے یہ سب لوگ کس کس فورم پر اپنی آواز اُٹھا چکے ہیں؟ اور کس کس فورم نے اُن کی آواز سُنی ان سُنی کر دی ہے؟ مگر اب اپنے اعلان کے مطابق جو طریقہ وہ بارہ ستمبر کو لاہور پریس کلب کے باہر باوردی احتجاج کا وہ اپنا رہے ہیں، یہ نوبت نہیں آنی چاہیے، اِس سے ادارے یا محکمے کی کتنی بدنامی ہوگی، کچھ طوطا چشم، منافق اعلیٰ پولیس افسران کو اِس پر غورکرلینا چاہیے، یہ کوئی اچھی روایت نہیں ہوگی، پولیس جو لوگوں کو انصاف فراہم کرنے کے حوالے سے باقاعدہ ایک ادارہ ہے اُس سے وابستہ باوردی افسران یا ملازمین جب خود انصاف کے لیے سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلیں گے کیا عزت باقی رہ جائے گی ؟ پولیس کے رینکرز افسران اورملازمین کو بھی کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنا چاہیے جس سے ادارہ بدنامی سے بچ جائے۔ البتہ یہ بھی ایک حقیقت ہے جب ’’بلی‘‘ کو کوئی راستہ نہ ملے ظاہر ہے وہ ’’نوندریں‘‘ ہی مارے گی …دنیا میں سزا اور جزا کا یکساں نظام ہی معاشرے کو بلندیوں پر لے جاسکتا ہے، یہاں بدقسمتی سے قصوروار (اگر کوئی ثابت ہو جائے یا کسی کو زبردستی ثابت کردیا جائے) اُسے فوراً سزا سنادی جاتی ہے، لیکن کوئی اچھا کام کرے اُسے اُس کا جائز حق بھی نہیں دیا جاتا، بے شمار رینکرز پولیس افسران کرائم کنٹرول کرنے میں ایسا شاندار تجربہ رکھتے ہیں جس سے فائدہ اُٹھاکر کئی پی ایس پی افسران نے کئی کئی میڈل اور ترقیاں حاصل کیں۔ اپنے نام بنائے، اپنے نمبر بھی بنائے، جو اِس کے اصلی حقدار تھے کہیں دکھائی نہیں دیئے، میں نے لاہور میں بہت عرصے تک بڑی کامیابی سے اپنے فرائض انجام دینے والے ایک دوست ڈی آئی جی سے ایک بار پوچھا لاہور کی پوسٹنگ تو کانٹوں بھری ہوتی ہے، آپ کیسے اتنی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں؟ اُنہوں نے مجھے بتایا ’’ میں جب لاہور میں تعینات ہوا میں نے کچھ انتہائی تجربہ کار ڈی ایس پیز اور انسپکٹرز کو بلایا جو کافی عرصہ سے لاہور میں کام کررہے تھے، یا کرچکے تھے، اُن میں کچھ ریٹائرڈ بھی تھے، میں نے گھنٹوں اُن سے میٹنگ کی، اُن سے رہنمائی لی، کرائم کنٹرول کرنے کے حوالے سے اُن کے تجربات سے استفادہ کیا، اُس کے بعد جتنا عرصہ میں لاہور میں رہا مجھے کسی معاملے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی،…عرض کرنے کا مقصد یہ ہے بجائے اس کے ایسے رینکرز پولیس افسران سے مزید فوائد حاصل کرنے کے لیے اُن کے جائز حقوق اُنہیں دیئے جائیں قانون کے تحت جو حقوق اُنہیں حاصل ہوتے ہیں کچھ ماتحت دُشمن اعلیٰ پولیس افسران کی یہ خواہش یا کوشش ہوتی ہے وہ بھی اُن سے چھین لئے جائیں، جس کے بعد وہ احتجاج بلکہ باقاعدہ ایک جنگ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، میں یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں ضروری نہیں تمام رینکرز پولیس افسران یا ملازمین اگلے گریڈوں میں ترقی کے حقدار ٹھہریں، اگر کوئی کرپٹ ہے، کسی کی کارکردگی ٹھیک نہیں، تو اُسے بالکل اُسی طرح اگلے گریڈ میں ترقی نہ دی جائے جس طرح کچھ پی ایس پی اور سی ایس پی افسران کو بھی اُن کی ناقابل برداشت نااہلیوں یا کرپشن وغیرہ پر اگلے گریڈوں میں ترقی نہیں دی جاتی، مگر رینکرز کی ترقیوں کے لیے کوئی نظام قائم کیا جائے، چاروں صوبوں کے آئی جی صاحبان اگر واقعی ماتحت پرور ہیں، اُنہیں چاہیے حکمرانوں کو خود اِس بات پر قائل کریں کہ جس طرح چیف سیکرٹری صاحبان، پی ایم ایس افسران ودیگر سول محکموں کے افسران کو گریڈ اٹھارہ سے اُوپر ترقی دینے کے لیے بااختیار ہیں، اُسی طرح آئی جی صاحبان کو بھی رینکرز پولیس افسران کو گریڈ اٹھارہ سے اُوپر ترقیاں دینے کے اختیارات دیئے جائیں، میں حیران ہوں پولیس کے اعلیٰ افسران، رینکرز کے اُس مطالبے کے خلاف رکاوٹ کیوں بن رہے ہیں جس کی منظوری کی صورت میں خود اعلیٰ پولیس افسران کے اختیارات میں اضافہ ہوگا ؟۔…پورے پاکستان میں اعلیٰ سطح پر محکمہ پولیس میں کئی سیٹیں ایس ایس پیز، ڈی آئی جیز، اور ایڈیشنل آئی جیز کی خالی رہتی ہیں، پی ایس پی افسران صرف پُرکشش سیٹوں پر لگنے کو ترجیح دیتے ہیں، اگر رینکرز پولیس افسران کو اُن کے جائز حق کے مطابق گریڈ اٹھارہ سے اُوپر ترقی مل جائے اور ترقی کے یہ اختیارات آئی جی صاحبان کو مل جائیں تو پولیس کی بے شمار سیٹیں جو پی ایس پی کی عدم دلچسپی کی وجہ سے خالی رہتی ہیں اُن پر تجربہ کار رینکرز پولیس افسران کی تعیناتی سے بے شمار مسائل حل ہوسکتے ہیں، اس وقت تقریباً43رینکرز پولیس افسران نے پی ایس پی گروپ جائن کرکے اٹھارہویں گریڈ میں ترقی حاصل کرنے کے روایتی سسٹم کورد کردیا ہے، اپنے حقوق کے لیے اُن کی جنگ میں تیزی آتی جارہی ہے، اُن کا یہ مؤقف بڑا جائز ہے کہ اُنہیں اُن کا حق ملنے سے کسی اور کی حق تلفی اگر ہوتی ہے، خصوصاً پی ایس پی افسران کو اِس کا کوئی نقصان ہوتا ہے وہ یہ جنگ بند کرنے کے لیے تیار ہیں۔ وہ اپنے مطالبے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں، لیکن اِس ضمن میں حکمران اور پولیس کے اعلیٰ افسران روایتی ہٹ دھرمی، ضد اور ڈھٹائی سے کام لے رہے ہیں پھر وہ محض اِس لیے چپ نہیں رہ سکتے کہ وہ ایک ’’ ڈسپلنڈ فورس‘‘ ہیں، …فورس چاہے کوئی بھی ہو اُس کے کچھ انسانی حقوق بھی ہوتے ہیں، افسوس صرف یہ ہے یہاں ہر کوئی اپنے ’’ذاتی حقوق‘‘ کے تحفظ کی لگن میں مگن ہے، ادارے برباد ہوتے جارہے ہیں اور اداروں سے وابستہ اعلیٰ شخصیات آباد ہوتی جارہی ہیں، رہے نام اللہ کا !!