پاکستان بار کونسل کا ججوں کو ذاتی مقاصد کیلئے بغیر سود کے قرض دینےوالا نوٹیفکیشن واپس لینے کا مطالبہ

 پاکستان بار کونسل کا ججوں کو ذاتی مقاصد کیلئے بغیر سود کے قرض دینےوالا نوٹیفکیشن واپس لینے کا مطالبہ
سورس: File


اسلام آباد: پاکستان بار کونسل نے نگران حکومت  پنجاب کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے 11 ججوں کو ذاتی مقاصد کے لیے بغیر سود کے قرض کے طور پر خطیر رقم دینے کی منظوری کے مبینہ فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نوٹیفکیشن فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کردیا ہے۔

پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید اور ایگزیکٹو کمیٹی کے چیئرمین حسن رضا پاشا نےاپنےبیان میں اس  اقدام کو غیر اخلاقی اور غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا  کہ  ملک کی موجودہ بدترین معاشی حالات میں ایسے اقدامات سےسرکاری خزانے کو بہت نقصان پہنچتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ججوں کے لیے عوامی وسائل سے قرضے کی منظوری کا یہ عمل نہ تو جائز ہے اور نہ ہی قابل قبول ہے جبکہ عوام الناس پہلے ہی افراط زر سے بری طرح متاثر ہیں اور ان کی معاشی حالت پہلے سے ہی ابتر ہے، انہیں مہنگائی کا سامنا ہے۔

وکلا کا مزید کہنا تھا کہ عوام اور یہاں تک کہ غریبوں سے بھی قرضوں پر 20 سے 25 فیصد سود وصول کیا جا رہا ہے جبکہ ایک جج جو پرکشش تنخواہوں کا پیکج لے رہا ہے اور دیگر مراعات سے بھی لطف اندوز ہو رہا ہے، اسے بلا سود قرضہ دینا بذات خود ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی، امتیازی سلوک اور عدم مساوات کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم لاہور ہائی کورٹ کے ججوں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس غیر اخلاقی اور بلا جواز قرض کو قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ پاکستان بار کونسل کے زیر انتظام 5 ستمبر 2023 کو آل پاکستان لائرز نمائندہ کانفرنس نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ججوں سمیت تمام مراعات یافتہ طبقے کو پہلے سے موجود تمام مراعات فوری طور پر بند کی جائیں۔

مصنف کے بارے میں