اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے آرمی ایکٹ کو درست قرار دیتے ہوئے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ملٹری ٹرائل کے لیے آزادانہ فورم کیوں نہیں بنایا گیا؟
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ "ڈیفنس آف پاکستان" اور "ڈیفنس سروسز آف پاکستان" میں واضح فرق ہے۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ "اگر کسی نے ممنوعہ جگہ پر داخل ہونے کی کوشش کی اور اجازت نہ ہو تو کیا اس کا ملٹری ٹرائل کیا جائے گا؟" انہوں نے مزید کہا کہ 1967 کی ترمیم کے بعد ایسا کوئی کیس سامنے نہیں آیا ہے اور یہ پہلا کیس ہے جس پر وہ غور کر رہے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ایسا سلسلہ شروع کیا گیا تو ملٹری ٹرائل کرنا انتہائی آسان ہو جائے گا۔ اس دوران، انہوں نے سوال کیا کہ کیا ملٹری عدالتوں میں زیادہ سزائیں دینے کی وجہ سے سویلین کیسز وہاں بھیجے جاتے ہیں؟
اس کیس کی مزید سماعت 15 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔