معقولیت پر مبنی اعتدال کا راستہ

Rana Zahid Iqbal, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

امریکہ نے پاکستان کو مذہبی آزادی کی خلاف ورزی سے متعلق خصوصی تشویش کے حامل ممالک کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ امریکہ اور اس کے زیرِ اثر ممالک کے نزدیک ریاستِ پاکستان انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے مطابق اپنے شہریوں کو رائے کی آزادی اور دیگر انسانی حقوق فراہم کرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ بادی النظر میں امریکی انتظامیہ کے اس اقدام کو پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی کا ردِ عمل کہا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاستوں اور حکومتوں کو دباؤ میں لینے کے لئے امریکی پالیسیاں طاقت اور برتری کے زعم میں تشکیل دی جاتی ہیں، جن کا کم از کم دیگر اقوام کی حد تک عدل و انصاف سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ امریکہ اور یورپ اجتماعی انسانی زندگی میں مذہب کا کردار اپنے تئیں محدود کر چکے ہیں، ان کے نزدیک انسان اجتماعی عقل و دانش اور اپنی ضروریات کی بنیاد پر خود ہی بہتر طور پر فیصلہ کر سکتا ہے اور اسے کسی بھی آسمانی ہدایت کی ضرورت نہیں ہے جو کہ ایک الحادی فلسفے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ لیکن ہم اپنے ہاں سیالکوٹ جیسے واقعات کر کے ان ممالک کی رائے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ جس کو قتل کیا گیا اس نے توہین نہیں کی تھی بلکہ اپنی فرض شناسی کی وجہ سے کچھ بد بخت مسلمان اس پر برہم تھے حالانکہ فرض شناسی اورا پنی ڈیوٹی سے انصاف کا درس ہمارے دین نے ہم مسلمانوں کو دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین ساخت سے پیدا کیا، اس کو عقل و شعور کی دولت سے نوازا۔ انسان وہ مخلوق ہے جو محبت کرتی ہے۔ جس سے محبت کی جاتی ہے۔ محبت کی بنیاد پر بننے والا انسانی معاشرہ ان تمام خوبیوں سے مالا مال ہو گا جو ایک اچھے اور پاکیزہ معاشرے کی ضرورت ہیں۔ مسلمان دوسروں کی حفاظت کرنے والا، سلامتی دینے والا، امن قائم کرنے والا ہوتا ہے۔ مجموعی طور پر پوری امتِ مسلمہ کو خیر امت کا ٹائٹل دیا گیا ہے۔ اب تم ہی انصاف کے امین ہو اور علم بردار بھی۔ تم ظالم نہیں ہو سکتے۔ تمہاری بستیاں امن کی سائبان ہیں جہاں مظلوم پناہ لیتے ہیں۔ اللہ پاک نے انسان کو کائنات میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا تا کہ اس کا قانون اور اس کی شریعت کا نفاذ ہو، جس کے باعث امن و امان کی صورتحال برقرار رہے لیکن ایسا نہیں ہوا، ہر بار انسانیت کے سامنے لا قانونیت جب کہ شریعت کے مدِ مقابل شیطانی طاقتیں 
آئیں۔ برِ صغیر میں مسلمانوں کی حکومت بھی انسانیت کی تکریم کے باعث قائم ہوئی اور صدیوں پر محیط رہی جس میں ہندو، عیسائی سمیت دیگر اقلیتوں کو مسلمانوںکی طرح مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ ساتھ نمایاں مقام حاصل رہا۔ مسلمان جہاں بھی رہے مساوات اور رواداری کے اصولوں پر عمل پیرا رہے۔ برِ صغیر میں ان کی حکمرانی کی اساس بھی یہی تھی اور ایک آزاد مملکت میں بھی وہ اسی رویہ پر کاربند رہے۔جب کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و سفاکیت کے پہاڑ توڑے گئے، مال و اسباب لوٹے گئے، مسلمان آبادیوں پر یلغاریں کی جاتی ہیں، بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا جاتا ہے حتیٰ کہ عبادت گاہوں کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ مساجد کو شہید بھی کیا گیا۔ اس کے باوجود مسلمانوں نے جس صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، وہ ناقابلِ یقین ہے۔ 
مذہب کے نام پر عدم برداشت کی حوصلہ شکنی و مذہبی رواداری اورا قلیتوں کے لئے برابری کی بنیاد پر آئینی حقوق کی پاسداری مملکت کا فرضِ اولین رہا ہے۔ البتہ گزشتہ چند سال سے  وطنِ عزیز میں اقلیتی برادری کو کچھ خطرات کا سامنا ہے لیکن اس کی بنیادی وجہ ملک میں جاری دہشت گردی کی لہر ہے جس نے چاروں طرف آگ لگا رکھی ہے اور یہاں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو مذہبی انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں اور ان میں تعلیم، شعور اور مذہبی رواداری کا کم ہونا ہے۔ انہیں صرف مخصوص مقاصد کے لئے خاص قسم کی تربیت دی جاتی ہے جو امتِ مسلمہ کے لئے زہرِ قاتل سے کم نہیں ہے۔ اس وقت اسلام بالخصوص پاکستان کو بلا شبہ سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی، انتہا پسندی اور فرقہ واریت سے ہے، لیکن اس سے بڑا خطرہ عقیدے کی ناپختگی ہے اور اسی نا پختگی کے باعث ملک میں اس قسم کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، جن میں اکثریت کی بنیاد نہایت کمزور رہی ہے۔
اس وقت وزیرِ اعظم پاکستان سمیت تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں، سول سوسائٹی ، انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کی پرزور مذمت کر رہی ہیں لیکن اقلیتی برادری کے تحفظات کو کس طرح کم کیا جا سکتا ہے، اس حوالے سے کوئی واضح اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک میں انسانی حقوق کی فراہمی، غاصبانہ طرزِ عمل کے خلاف قانون و آئین کی عملداری کو یقینی بناتے ہوئے ملک میں ایسے اقدامات کئے جائیں جن سے حالت میں بہتری آئے۔ ایسے واقعات ہمیں وقتی طور پر رنجیدہ کرتے ہیں۔ نام نہاد مذہبی رہنما، اس اسلامی مملکت میں حق و باطل کے خود ساختہ ٹھیکیدار ایک عرصے سے غیر ضروری باتوں کو اچھال کر اور پھر دفاعِ اسلام کے نام پر جلوس نکالنے، سڑکیں بلاک کرنے اور با آ واز بلند نعرہ بازی کے لئے ہر وقت تیار رہے ہیں جب کہ شرکاء اس بات کا ادراک نہیں رکھتے کہ چند بے سروپا باتیں اسلام کے لئے کیسے خطرہ بن سکتی ہیں۔ معاشرے میں بری طرح سرایت کر جانے والی منافقت خود ساختہ راست بازی کے خول میں بند ایک منفرد نوعیت کی منافقت ہے۔ ہم حالتِ انکار میں رہنا پسند کرتے ہیں کیونکہ انکار کا مطلب حقائق سے فرار ہے۔ ہمارے کئی سنگین مسائل ہیں جو وقت کے ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں، ہم کیوں خود ساختہ مسائل کی تلاش میں رہتے ہیں؟   
ایک ایسا ملک جس کے قیام کی جد و جہد میں شیعہ، جس کے قیام کے لئے مقامی مسیحی آبادی نے قربانیاں دیں، ہندوؤں نے جسے چھوڑنے سے انکار کیا مگر ان تمام باتوں کو بھلا کر مذہبی جنون پرستی کو کھلا چھوڑ دیا گیا، جس کے سبب یہ دھرتی آگ و خون میں لتھڑ چکی ہے۔ آ ج نہ اقلیت محفوظ اور نہ ہی اکثریت کو امان حاصل ہے۔ کیا اسی لئے یہ ملک بنایا گیا تھا؟ کیا عقیدے اور لسانی و نسلی بنیاد پر خطِ امتیاز کھینچنے کے لئے یہ ملک تعمیر کیا تھا؟ کسی دانشور نے کیا خوب کہا تھا کہ نفرتوں کی بنیاد پر قائم معاشروں میں نفرتوں سے چھٹکارہ ممکن نہیں ہوتا۔ جب کسی ایک نفرت کو بنیاد بنا کر کوئی حدِ فاصل کھینچی جاتی ہے تو خود رو پودوں کی طرح نئی کونپلیں پھوٹنا شروع ہو جاتی ہیں اور یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کہ وہ معاشرہ انہیں نفرتوں کی آگ میں جھلسا کر خاکستر نہیں ہو جاتا۔ ہمارے ہاں کوئی بھی قانون ذاتی دشمنی نکالنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر نادانوں کا معاشرہ ہے۔ یہاں جذبات میں آ کر لوگ آگ لگا کر مار دیتے ہیں۔ ہم بطور قوم بلوغت کی اس سطح تک نہیں پہنچے کہ کسی معاملے میں حکمت اور تدبر سے کام لے سکیں۔ ہمارے ہاں ہر حوالے سے جذبات بھڑکائے جاتے ہیں۔ مذہبی سکالر ہوں یا سیاسی رہنما، دانشور ہوں یا پروفیشنلز، اہلِ قلم ہوں یا اساتذہ، ہر طبقہ فکر میں پاپولر رائے کو ایکسپلائیٹ کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ قوم کو درست راہ یا توازن برقرار رکھنا کوئی نہیں بتاتا۔ معاملہ جو بھی ہو اس میں جذبات بھڑکانے یا اپنے روایتی تعصبات کی بنا پر کوئی رائے قائم کرنے کے بجائے کھلے ذہن سے اس ایشو کو دیکھا جایا جانا چاہئے ۔ معقولیت پر مبنی اعتدال کا راستہ اپنائے بغیر ہمارے معاشرے سے مذہبی انتہا پسندی اور لبرل شدت پسندی دونوں خاتمہ ممکن نہیں۔