چلی ہے رسم قاتل بھی ہم مدعی بھی ہم……

چلی ہے رسم قاتل بھی ہم مدعی بھی ہم……

بالآخر سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر درج ہو ہی گئی لیکن بے بسی دیکھیں کہ پنجاب میں حکومت ہوتے ہوئے بھی اس حملے کے ملزمان بھی مدعی کی جگہ پولیس نے نامزد کیے۔ اس ملک میں لیاقت علی خان کے بعد بے نظیر بھٹو اور اب عمران خان کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ اصل حملہ آوروں کو ”طاقتور“ حلقوں نے ایف آئی آر میں نامزد ہی نہ ہونے دیا۔ اگر مدعی اپنے ملزم نامزد نہیں کر سکتا تو پھر 90 فیصد کیس تو ویسے ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اب پولیس مدعی ہے اور تحریک انصاف چاہے بھی تو اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد انصاف کا حصول اس کے لیے مشکل ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ اس کیس کا حشر بھی ماڈل ٹاؤن کے قتل عام جیسا ہو اور جو ”قوتیں“ مدعی کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کرنے دے رہیں وہ شفاف تفتیش ہونے دیں گی؟ کہا جا رہا ہے کہ یہ ایف آئی آر سپریم کورٹ کے حکم پر درج کی گئی ہے۔ ایف آئی آر کسی بھی مدعی کا حق ہوتا ہے اگر پولیس نے سپریم کورٹ کو اس حوالے سے گمراہ کیا ہے اور از خود درج ایف آئی آر میں مدعی کے نامزد کردہ افراد کو شامل نہیں کیا گیا تو سپریم کورٹ کو اس کا نوٹس لینا چاہیے اگر ایسا نہ ہوا تو یہ انصاف کی فراہمی میں بہت بڑی رکاوٹ تصور ہو گی۔ سپریم کورٹ نے ایف آئی درج نہ ہونے پر سو موٹو نوٹس لینے کا کہا لیکن اس یکطرفہ ایف آئی آر پر بھی عدالت عظمیٰ کو نوٹس لینا چاہیے۔ ورنہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آنے والے وقت کے لیے ایک مثال بن سکتا ہے اور پولیس کسی بھی مدعی کی منشا کے مطابق ایف آئی آر کے اندراج میں بڑی رکاوٹ بن جائے گی۔
گو کہ میڈیا رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس یحییٰ آفریدی کا ایف آئی آر کے اندراج کے حوالے سے اختلافی نوٹ بھی سامنے آ گیا ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایف آئی آر درج کرنے کے حکم پر شدید تحفظات ہیں کہ موجودہ کیس میں آئی جی پنجاب کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دینا غیر متعلقہ ہے۔ تحریک انصاف کو سپریم کورٹ کے ایف آئی آر کے اندراج کے فیصلے اور پولیس کی طرف سے مرضی کے اندراج کے فیصلے کو چیلنج کرنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ پولیس نے عدالتی حکم کی تعمیل اپنی ترجیح کے مطابق کی جس کا فائدہ ملزمان کو ہو گا۔ اس میں لمحہ فکریہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ کی خاموشی سے لگتا ہے کہ پولیس کی ایف آئی آر کو تسلیم کر لیا ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ ترکیہ ٹی وی کو 
انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کا یہ کہنا بھی معنی خیز ہے کہ میرا کیس رجسٹر کرنے سے پنجاب پولیس نے انکار کر دیا تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر پنجاب پولیس کو کون کنٹرول کر رہا ہے۔ ان کا یہ کہنا بھی الارمنگ ہے کہ بند کمرے میں چار لوگوں نے میرے قتل کا منصوبہ بنایا اور جن ”طاقتور“ لوگوں نے قتل کا منصوبہ بنایا انہیں بلٹ پروف شیشوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ پاکستان اور عمران خان کی حفاظت کرے اب یہ ملک مزید کسی حادثے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اختلافی نوٹ تو دے دیا لیکن سپریم کورٹ نے اس بات کا نوٹس کیوں نہ لیا کہ ملزم کے اعترافی بیانات کن ”قوتوں“ نے اور کیوں جاری کیے؟ رانا ثنااللہ، مریم نواز، مریم اورنگ زیب، خواجہ آصف، جاوید لطیف اور دوسروں کے واقعہ سے پہلے اور بعد اشتعال انگیز بیانات کا نوٹس کیوں نہ لیا؟ حافظ آباد میں مسلم لیگ ن کے رائے قمر زمان نے سینئر پارٹی قیادت کی موجودگی میں عمران خان کو خاکم بدہن قتل کرنے کا اعلان کیا اس سے بھی سپریم کورٹ نے صرف نظر کیا آخر کیوں؟ اس پر تو سوموٹو نوٹس بنتا تھا کہ نہیں؟
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن یا حکومتی اتحاد کے کسی لیڈر نے حافظ آباد کے رائے قمر کی عمران خان کو قتل کی دھمکی کی مذمت نہیں کی اور خاموشی تائید سمجھی جاتی ہے۔ سپریم کورٹ کو گرفتار ملزم کی سکیورٹی کے لیے بھی احکامات دینے چاہئیں ورنہ ماضی کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے ڈر ہے کہ ایک بار پھر وہی کہانی نہ دہرائی جائے کہ جس میں گرفتار ملزم اپنے مبینہ ساتھی ملزمان کی نشاندہی کے لیے پولیس کے ساتھ جاتا ہے اور اس دوران وہ اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ کی زد میں آ کر جاں بحق ہو جاتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کیونکہ پنجاب پولیس وزیر اعلیٰ پنجاب کے کنٹرول میں نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف شکر کرے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی طرح عمران خان پر قاتلانہ حملے میں ان کی جماعت کو ملوث نہیں کیا گیا۔ یاد رہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ابتدائی ایف آئی آر میں پاکستان عوامی تحریک کے لیڈران کو ہی نامزد کر دیا گیا تھا اور بقول رحیق عباسی کے ان کی جماعت کے لوگ پولیس کی طرف سے ایف آئی آر میں نامزدگی کی وجہ آج بھی اس مقدمے کی تاریخیں بھگت رہے ہیں۔ تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو؟ اس ملک میں یہ جو رواج چل گیا ہے کہ مدعی اپنے ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج ہی نہیں کرا سکتا ہے کے دور رس نتائج نکلیں گے اور پولیس اس کا ایسا غلط استعمال کرے گی کہ نظام انصاف کی چولیں ہل جائیں گی۔ اگر سپریم کورٹ نے پولیس کی جانب سے درج کی جانے والی ایف آئی آر کو تسلیم کر لیا تو کس تفتیشی آفیسر کی جرأت ہو گی کہ وہ ضمنیوں یا تفتیش کے دوران بھی مدعی کی طرف سے قرار دیے گئے ملزمان کو شامل تفتیش کرے۔
ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے 14 قتل کی ایف آئی آر بھی ابتدا میں نامعلوم افراد کیخلاف درج کی گئی تھی اور آج اس کا حشر دیکھ لیں انصاف تو درکنار لگتا ہے کہ 14 افراد مرے ہی نہ تھے۔ مبینہ نامزد قاتلوں میں ایک وزیر اعظم بن گیا اور دوسرا وفاقی وزیر داخلہ لیکن نظام انصاف مقتولین کو انصاف نہ دلا سکا۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو کے قتل کی ایف آئی آر بھی نامزد ملزمان کے بجائے پولیس کی ایما پر نامعلوم افراد کے خلاف درج کی گئی اور بعد میں پیپلز پارٹی نے 5 سال حکومت بھی کی لیکن اسے بھی انصاف نہ مل سکا۔ ایک اور سابق وزیر اعظم لیاقت علی خان کے قاتل کو تو موقع واردات پر ہی قتل کر دیا گیا تا کہ تفتیش ہی نہ ہو سکے کہ قاتل کے پیچھے کون سی قوتیں تھیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف، وزیر دفاع خواجہ آصف، جاوید لطیف، مریم نواز، مریم اورنگ زیب اور رانا ثنا اللہ نے اسے مذہبی منافرت کا کیس کہہ کر پہلے ہی اس کی تحقیق کی فائل بند کر دی ہے اوپر سے سپریم کورٹ کے حکم پر مدعی کی درخواست کے خلاف درج ایف آئی آر نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ ملک ایک کے بعد ایک بحران کا شکار ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف کی کابینہ سمیت لندن یاترا بھی معنی خیز ہے جہاں وہ آئندہ کے لائحہ عمل کے لیے نواز شریف سے مشورے لیں گے۔ دیکھیں اس میں کیا فیصلے ہوتے ہیں۔
اعظم سواتی کی اہلیہ کی ویڈیو کے بعد آجکل ملک میں قومی سیاستدانوں کی خفیہ ویڈیو سیریز کا شرمناک سلسلہ پھر سے شروع ہو چکا ہے۔ گو کہ ان ویڈیوز کے حقیقی ہونے بارے میں بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ لیکن حقیقت کی تہہ میں کون جاتا ہے۔ اس طرح کی ویڈیوز کسی بھی شہری کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہونے کے علاوہ اس خدشے کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ ویڈیوز بلیک میلنگ کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔ سپریم کورٹ کو ایسے معاملات کا سو موٹو لے کر ذمہ داروں کو بے نقاب کرنا چاہیے ورنہ کوئی محفوظ نہ رہے گا۔
اس کالم کے حوالے سے اپنی رائے 0300-4741474 پر وٹس ایپ کریں۔

مصنف کے بارے میں